Sidebar

19
Fri, Apr
4 New Articles

مکی مدنی

உருது முன்னுரை
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

مکی مدنی

قرآن حکیم کی بعض آیتیں نبی کریم ؐ کی مکہ والی زندگی میں نازل ہوئی ہیں۔وہ مکی کہلاتی ہیں۔ اور بعض آیتیں نبی کریم ؐ کی مدینہ والی زندگی میں نازل ہوئی ہیں۔ وہ مدنی کہلاتی ہیں۔

عثمانؓ کے ذریعے مرتب شدہ قرآن کریم کی اصل نسخہ میں یہ کہیں دکھائی نہیں دی کہ یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی ہے اور یہ سورت مدینہ میں نازل ہوئی ہے۔ 

لیکن دنیا بھر میں شائع شدہ قرآن مجید کے نسخوں میں بعض سورتوں کے اوپر لکھا گیا ہے کہ یہ مکہ میں نازل ہوئی ہے اور بعض سورتوں کے اوپر لکھا گیا ہے کہ یہ مدینہ میں نازل ہوئی ہے۔

اگر یہ فیصلہ کر نا ہے کہ قرآن مجید میں ایک آیت مکہ میں نازل ہوئی ہے تو اس کے لئے قابل قبول دلیل چاہئے۔ اس طرح کے دلائل کئی قسم کے ہیں۔

اگر اصحاب رسول کہتے کہ یہ آیت نبی کریم ؐ کو اس موقع پر نازل ہوئی تھی تو اس بنیاد پر ہم فیصلہ کر سکتے ہیں کہ یہ آیت کہاں نازل ہوئی تھی۔ 

یا ایک آیت کے مفہوم پر غور کر تے ہوئے ہم فیصلہ کر سکتے ہیں کہ وہ آیت اسی موقع پر نازل ہوئی ہوگی۔ مثال کے طور پر جنگ کے متعلق کی آیتیں نبی کریم ؐ کے مکی زندگی میں نازل نہیں ہوئی ہوگی۔

 کیونکہ آپ مکہ میں اس حالت میں نہیں تھے کہ وہ اپنے دشمنوں سے جنگ کریں۔ 

اسی طرح اگرقانون جرمیات کے بارے میں کوئی آیت ہو تواس طرح قانون بنانا ایک حکومت قائم کر نے کے بعد ہی عمل در آمد ہوسکتا ہے۔ اس بنیاد پر ہی ہم فیصلہ کر سکتے ہیں کہ یہ مدینہ میں نازل ہوئی ہے۔ 

ایسی کسی دلیل کے بغیر ایک سورت یا کوئی آیت مکہ میں نازل ہوئی ہے یا مدینہ میں نازل ہوئی ہے کہنا بہت بڑی غلطی ہے۔

بعض سورتیں دونوں زمانے میں نازل شدہ آیتوں والی ہیں۔ اس لئے اگرنشاندہی کر نا ہی ہے کہ ایک مکمل سورہ مکہ میں نازل ہوئی ہے یا مدینہ میں نازل ہوئی ہے ، اس کے لئے واضح دلیل کی ضرورت ہے۔ 

ایسی کسی دلیل کے بغیرہر سورت کی ابتدا میں یہ مکہ میں نازل ہوئی ہے یا مدینہ میں نازل ہوئی ہے شائع کر دینا قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ یہ قرآن کے متعلق غلط بیان کے جرم میں شامل ہوگا۔

کسی دلیل کے بغیرہر کوئی اپنے من مانی اس طرح درج کرنے کی وجہ ہی سے آج اس معاملے میں مختلف حالات رونما ہو رہے ہیں۔

مثال کے طور پر قرآن مجید کی آخری دو سورتیں یعنی 113 اور 114 کے بارے میں اے۔کے۔ عبدالحمید باقوی نے اپنے ترجمہ میں لکھا ہے کہ یہ دونوں سورتیں مکہ میں نازل ہوئی ہیں۔ 

انہیں سورتوں کے بارے میں کے۔اے۔نظام الدین منبعی نے اپنے ترجمہ میں لکھا ہے کہ یہ دونوں سورتیں مدینہ میں نازل ہوئی ہیں۔ 

اسی طرح کئی سورتوں کے بارے میں بہت سارے اختلاف رائے پائے جاتے ہیں۔ اسی لئے ہم نے سورتوں کے آغاز میں یہ نہیں لکھا ہے کہ یہ مکہ میں نازل ہوئی ہے یا مدینہ میں نازل ہوئی ہے۔

ہمیں یہ جان لینی چاہئے کہ وہ لوگ چند غلط پیمائش کو استعمال کر کے فیصلہ کی ہے کہ وہ کہاں نازل ہوئی ہے۔

جس سورت میں ایسی آیتیں ہوں جس میں اے لوگو! سے مخاطب کیا گیا ہے،ان کی پیمائش ہے کہ وہ سورتیں مکہ میں نازل ہوئی ہیں۔یہ پیمائش بغیر دلیل کی پیمائش ہے۔ قرآن مجید کی چوتھی سورت مدینہ میں نازل ہوئی ہے ، اس کی دلیل موجود ہے۔ تم دیکھ سکتے ہو کہ اس کی پہلی ہی آیت اے لوگو! سے مخاطب کیا گیا ہے۔ 

اسی طرح ان کی پیمائش ہے کہ اے ایمان والو سے مخاطب شدہ آیتیں مدینہ میں نازل ہوئی ہیں۔ لیکن تم دیکھ سکتے ہو کہ مکہ میں نازل شدہ بائیسویں سورت کی 77ویں آیت میں اے ایمان والو! سے مخاطب کیا گیا ہے۔ 

قرآن مجید کی بعض آیتیں نبی کریم ؐ کی مکہ والی زندگی میں اور بعض آیتیں آپ کی مدینہ والی زندگی میں نازل ہوئی ہیں۔ اس کے باوجود اس کو مناسب دلیلوں کی بنا پر ہی فیصلہ کر نا چاہئے۔ جن آیتوں کے بارے میں اگر کوئی دلیل نہ ملے تو اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہ کر نا ہی اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے بہتر ہے۔

ہماری اس وضاحت کی بنا پر تمہیں ہمیشہ یہ یاد رکھنی چاہئے کہ سورتوں کے نام، تیس پارے، ربع، نصف اور ثلاثہ کے حصے، سجدے کی علامات، ٹہرنے کی نشانات ،رکوع ، چند لفظوں کو جلی حروفوں میں لکھنا، مکی مدنی کے عنوانات درج کرانا یہ تمام باتیں قرآن مجید کے اصلی نسخہ میں موجود نہیں ہے اور اس کو بعد کے زمانے میں شامل کیا گیا ہے۔ 

مسلم سماج بیدار ہو کر اگر ان حقائق کو ٹھیک طور سے سمجھ گئے تو جو اصل نسخہ میں نہیں ہے ، اس کو بعد کے زمانے میں کناروں پر، عنوانات پراور آیتوں کے درمیان پر درج شدہ تمام علامات کو نکال دینا قرآن کے لئے بہت بڑی خدمت ہوگی۔ 

آیتوں کی گنتی

قرآن مجید میں کتنی آیتیں ہیں ، اس کے متعلق علماء مختلف گنتی بتا رہے ہیں۔ 

علیؓ نے کہا ہے کہ6218 آیتیں ہیں۔ 

ابن عباسؓ نے کہا ہے کہ 6616آیتیں ہیں۔ 

حُمید نامی شخص نے کہا ہے کہ 6212آیتیں ہیں۔

عطا نامی شخص نے کہا ہے کہ 6177آیتیں ہیں۔ 

پھر ایک موقع پر کہا ہے کہ 6204آیتیں ہیں۔

عام طور سے لوگ 6666آیتیں بتارہے ہیں۔ 

اب جو دنیا بھر میں قرآن شائع ہورہا ہے اس میں 6236آیتیں جگہ پائی ہیں۔ 

اللہ یا اس کے رسول نے نہیں کہا کہ کتنی آیتیں ہیں۔ اس کے علاوہ عثمانؓ کے اصل نسخے میں بھی قرآن کی کل آیتوں کے بارے میں کسی بھی سورہ کے ابتدا میں نشاندہی نہیں کی گئی ہے۔ 

عثمانؓ کا مرتب شدہ اصل نسخے میں ہر آیت کی اختتام میں آیتوں کی گنتی نہیں بتائی گئی ہے۔ ایک آیت کہاں ختم ہوتی ہے ، اس کی نشاندہی بھی اصل نسخہ میں نہیں کی گئی ہے۔

 اسی لئے آیتوں کی گنتی میں ہرشخص ایک مختلف گنتی بتا رہا ہے۔ گنتی کے بارے میں مختلف رائے رہنے کے باوجود جو بھی گنتی کہو ، اس سے قرآن میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں ہوسکتی۔

ایک شخص دو آیتوں کو ایک سمجھے گا، دوسرا شخص ایک آیت کو دو سمجھے گا۔ اگر اختلاف رائے ہے تو اسی میں ہے کہ آیت کو کہاں ختم کیا جائے۔ 

دنیا بھر کے لوگ جو قرآن استعمال کر رہے ہیں اس کی گنتی کو اگر ہم غور کریں تو ہم اچھی طرح جان سکتے ہیں کہ علماء گنتی کے اس معاملے میں کافی توجہ نہیں فرمائی ہے۔ 

بعض جگہوں میں فاعل کو ایک آیت بتا رہے ہیں اور خبر کو ایک آیت بتا رہے ہیں۔ دونوں کو ملا کر ایک آیت بتا یا جائے توہی اس کی پوری مفہوم سمجھ میں آئے گی۔

جملے کے لئے قرآن آیت کا لفظ استعمال کر تا ہے۔ آیت کا مطلب ہے نشانی۔قرآن اس کو اس طرح اس لئے کہتا ہے کہ ہر آیت پوری مفہوم ظاہر کر کے دلیل بنی ہوئی ہے۔

ایک خبر جب پوری ہوتی ہے تو ہی وہ دلیل بن سکتی ہے۔ اگر مفہوم پوری نہیں ہوگی تو وہ دلیل نہیں بن سکتی۔ 

اب جو گنتی درج کئے ہوئے ہیں اس کو اگر غور سے دیکھا جائے تو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ آیتوں کو نمبر دینے والے مفہوم کی طرف توجہ نہیں فرمائے ہیں۔ 

بعض جگہوں میں ایک مفہوم ایک آیت بنی ہوئی ہے اور اس مفہوم سے نکلی ہوئی استثناء دوسری ایک آیت بنی ہوئی ہے۔ اگر ان دونوں آیتوں کو ایک ساتھ ملا دئے ہوتے تو سمجھنے کے لئے آسان ہوتا۔ 

مثال کے طور پر چند آیتیں ملاحظہ فرمائیے۔

چوتھی سورت میں آیت نمبر 168 اور169 کو اٹھالیجئے۔ 

اس میںآیت نمبر 168میں ہے: ’’راہ نہیں دکھائے گا‘‘ اور آیت نمبر 169میں ہے : ’’جہنم کے راستے کے سوا‘‘۔ دونوں مل کر  ہی ایک جملہ بنے گا۔ تاہم اس کو دو آیت بنائے ہوئے ہیں۔ 

ساتویں سورت میں آیت نمبر 121 اور122 اٹھالیجئے۔آیت نمبر 121میں ہے : ’’انہوں نے کہا ، ہم سارے جہاں کے رب پر ایمان لے آئے۔‘‘ اور آیت نمبر 122 میں ہے: ’’جو رب ہے موسیٰ اور ہارون کا۔‘‘

’’جو رب ہے موسیٰ اور ہارون کا‘‘ میں کوئی مفہوم مکمل نہیں ہے۔اگر اس طرح کہا جائے کہ ’’ہم سارے جہاں کے پروردگار ، موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لے آئے‘‘ تو ہی مفہوم مکمل ہوتی ہے۔ دونوں مل کر ہی ایک جملہ بنتا ہے۔ تاہم اس کو بھی دو آیتیں بنادیا گیا ہے۔ 

اسی طرح گیارہویں سورت میں آیت نمبر 96 اور 97 اٹھالیجئے۔ آیت نمبر 96 میں ہے: ’’ہم نے مناسب دلیلوں کے ساتھ موسیٰ کو بھیجا‘‘۔اور آیت نمبر 97 میں ہے : ’’فرعون اور اس کے گروہ کے پاس۔‘‘

’’فرعون اور اس کے گروہ کے پاس‘‘ کا جملہ آیت نمبر 96 کے ساتھ جڑنا چاہئے۔ لیکن ’’فرعون اور اس کے گروہ کے پاس‘‘ جدا کر دینے کی وجہ سے اس کا معانی ہی پورا نہیں ہوتا۔ 

ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس طرح کئی جملے مفہوم مکمل نہ ہوئے بغیر آیتوں کو جدا کر دیا گیا ہے۔ بعض جگہوں میں ایک ہی جملے کو چار یا پانچ آیتیں بنا دیا گیا ہے۔بعض جگہوں میں مکمل معنی کے بغیر ایک ہی لفظ کو بھی ایک آیت حساب گیا ہے۔ 

نہایت ہی عمیق معانی اوراپنی خوبصورت انداز کی وجہ سے قرآن حکیم کو ایک مخصوص مقام حاصل ہے۔

اگر آیتوں کو الگ کر نا ہے تو اس کے لئے دو پیمائش ہو نا چاہئے۔ نبی کریمؐ پڑھتے وقت کس جگہ پر ٹہراؤ کیا تھا اگر اس جگہ کو ایک آیت مقرر کر تے تو قابل قبول ہوسکتا تھا۔ 

یا ایک مفہوم جہاں ختم ہوتا ہے اس جگہ کو ایک آیت مقرر کیا جاتا تو وہ عقلمندی کی بات مانی جاتی۔ لیکن ان دونوں پیمائش کی بنیاد پر آیتوں کو نمبر نہیں دیاگیا۔ 

بلکہ ہر آیت کومخصوص ایک لفظ سے ختم کر نا ہی آیتوں کو الگ کر نے کے لئے پیمائش کی گئی ہے۔ 

مثال کے طور پر یہ دیکھ کر کہ ’یعلمون‘ ، ’تعلمون‘، ’یفعلون‘ جہاں آتی ہے اس جگہوں میں آیتوں کو ختم کیا ہے۔ ان کے معانی پر غور نہیں کیا۔

غیر مناسب آیتوں کو نمبر دینے سے کئی دوسری پریشانیاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ ایک زبان سے دوسری زبان کوجب قرآن کو ترجمہ کیا جا تا ہے تو چندآیتوں کا مطلب پورا نہیں ہوتا۔ اس کو پورا کرنے کیلئے قوسین کے اندر خاص اپناچند الفاظ جمع کر نا پڑتا ہے۔

ہر ترجمہ میں اکثر قوسین جگہ پانے کی وجہ یہی ہے کہ مطلب جہاں ظاہر نہیں ہوتی اس جگہ آیتوں کو جدا کر دیا گیاہے۔ 

آیتوں کو نمبر دینے کے اس واقعہ کو نہ جاننے والے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اللہ ہی نے ان آیتوں کو نمبر دے رکھا ہے۔ وہ اس پر بھی غور نہیں فرمایا کہ اگر ان نامکمل آیتوں پر توجہ فرمائیں تو ان کے عقائد پر اثر پڑ سکتا ہے۔ 

وہ لوگ عربی زبان بولنے والے تھے۔انہیں یہ بھی نہیں سوجھا کہ اس کے ترجمہ سے کئی دشواریاں پیدا ہوسکتی ہیں اور دوسرے لوگوں کو قرآن کے بارے میں غلط فہمی پیدا کر نے کے لئے ہم ذمہ دار بن گئے۔ 

تاہم اب دلیلوں کو بیان کر نے کے لئے، بحث و مباحثہ کرنے کے لئے، وعظ و نصیحت کے لئے، مخصوص ایک آیت کو چن کر نکالنے کے لئے یہ گنتیاں فائدہ مند ہیں۔ 

اب ہر ایک اس میں تبدیل کر نے کے لئے کوشش میں اتریں تو غیر ضروری پریشانیاں ہی پیدا ہوں گی۔ اس لئے ہم نے جن گنتیوں کو چند صدیوں سے استعمال کیا جا رہا ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ 

اسی وقت ہم نے نامکمل آیتوں کو جمع کر کے ترجمہ کی ہے اور غیر ضروری قوسین سے اجتناب کی ہے۔ 

آیتوں کو نمبر ڈالنے والے تھوڑی دیر ہی سے ڈالا ہے، اس کے لئے دو ٹمل ترجمے ثبوت ہیں۔ 

اے۔کے۔عبد الحمید باقوی نے اپنے ترجمے میں چھٹویں سورت کی 73ویں آیت کو ایک آیت لیا ہے۔ 

اسی کو نظام الدین منبعی نے73 اور 74 دو آیتیں بتائی ہیں۔ 

اس وجہ سے وہ پوری سورت دو ترجموں کے درمیان ایک نمبر کی تفریق ہی سے موجود ہے۔ 

چند بھائیوں کو محسوس ہو گا کہ اس خبرکو تو ہم نے اب تک نہیں سنی۔ لیکن ہردور میں اس اس زمانے والوں کو یاد دلایا گیا ہے۔ 

کئی صدیوں پہلے گزری ہوی ’الادقان‘ نامی کتاب میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ سیوطی نامی ایک عالم سے بیہقی نے کہاتھا کہ قرآن مجید میں جو موجود نہیں ہے ان آیتوں کی گنتی، سجدوں کے علامات، دس آیتیں ختم ہو نے کے بعد ایک نشان اور ٹہراؤ کے علامات ان سب کو قرآن مجید میں شامل نہیں کر نا چاہئے۔

بیہقی بیان کر تے ہیں کہ اسی کتاب میں سلیمی نامی عالم نے کہا ہے کہ پانچ آیتوں کے بعد ایک نشان، دس آیتوں کے بعد ایک نشان، سورتوں کے نام، آیتوں کی گنتی، ان سب کو قرآن مجید میں درج کر نا کراہت ہے۔ 

مختصر ۱ً اگرکہا جائے تو ہر سورت کے آغاز میں ’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘ کے سوا کوئی آیت کی گنتی، سورت کے نام اور بیچ بیچ میں لکھے جانے والی باتیں اصل نسخہ میں نہیں ہیں۔

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account