Sidebar

16
Tue, Apr
4 New Articles

ابوبکرؓ کی خلافت میں ۔ ۔ ۔

உருது முன்னுரை
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

ابوبکرؓ کی خلافت میں ۔ ۔ ۔

بنی کر یم ؐ کی وفات کے بعدابوبکرؓ نے خلافت سنبھالا۔ ان کی خلافت کے زمانے میں ہجری کی بارہویں سال میں یمامہ نامی ایک جنگ چھڑا۔

مسیلمہ نامی ایک شخص نے خود کو رسول اعلان کر کے اپنے لئے ایک گروہ بنا لیا تھا۔ اس علاقے میں جو اسلام قبول کر چکے تھے انہیں کئی طرح کی تکلیفیں دینے لگا تھا۔ اسی لئے اس کے خلاف ہی یہ جنگ چھڑا تھا۔ اس جنگ میں کم از کم ستر اصحاب مارے گئے جو حافظ قرآن تھے ۔

اس واقعہ کے بعد عمرؓ نے ابوبکرؓ سے مل کر قرآن مجید کو تحریری شکل میں ترتیب دینے کے لئے زور دینے لگے۔شروع میں ابوبکر ؐ نے عمرؓ کی اس درخواست کو قبول کر نے سے تھوڑا تامل کیا۔ 

ان کی تامل کی وجہ یہ تھی کہ نبی کریم ؐ نے جو کام نہیں کی تھی اسے ہم کیسے کریں!عمرؓ نے اپنی طرف کے حقائق کو زور دے کر تشریح کرنے لگے کہ یہ کام تواب کرنا بہت ہی ضروری ہو گیا ہے۔ اس کے بعد ہی ابوبکرؓ نے اس کو مانا۔ اس وقت قرآن مجید کے حفظ کر نے والوں میں اور لکھنے والوں میں شہرت یافتہ نوجوان زید بن ثابتؓ کو ابو بکرؓ نے بلابھیجا اور ان کے پاس اس ذمہ داری کو سونپا۔

انہوں نے بھی اس ذمہ داری کو منظورکر کے قرآن مجید کو ترتیب دینے میں مشغول ہوگئے۔ 

(دیکھئے بخاری: 4988 اور 4989۔ )

نبی کریم ؐ کی زندگی میں جبب بھی کوئی آیت نازل ہو تی ہے تو وہ فرمادیا کر تے تھے کہ اس آیت کو اس آیت کے پہلے درج کرو، اس آیت کو اس آیت کے بعد لکھو، اور ان آیتوں کو ان معنی والے سورت میں رکھو۔ اسی طرح اصحاب لکھ لیا کر تے تھے اور یاد بھی کرلیا کر تے تھے۔

(دیکھئے: ترمذی ۔3011)۔

آج ہم جو قرآن پڑھتے ہیں اس کی ہر ایک سورت میں جس طرح آیتیں ترتیب دی گئی ہیں ، وہ ہمارے نبی کریم ؐ دکھائے ہوئے طریقے ہی پر تشکیل پائے ہو ئے ہیں۔ 

آیتوں کی ترتیب اور ایک سورت میں جگہ پانے والی آیتیں کونسی ہیں ، یہ تمام باتیں نبی کریم ؐ کے حکم کے مطابق درج کی گئی ہیں۔ 

ہمیں سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اس میں ابو بکرؓ کا کام کیاتھا؟

نبی کریم ؐ جب لکھنے کے لئے کہتے ، ان تمام وقتوں میں سب کاتب مدینے میں نہیں ہوں گے۔ چند آیتیں جب نازل ہوتی ہیں تواس وقت وہ لوگ بستی کے باہر رہے ہوں گے، یا اپنے کسی خاص کام کی وجہ سے لکھنے سے مجبور رہے ہوں گے۔ ایسے لوگ اپنے صحیفوں میں ان آیتوں کو لکھے نہ ہوں گے۔

اس طرح ہر کاتب کے صحیفوں میں کچھ نہ کچھ آیتیں یا سورت چھوٹ جانے کا امکان تھا۔ 

ہر کاتب اگر یہ خیال کر ے کہ جو اپنے پاس ہے وہی کامل قرآن ہے تو یہ گمان پیدا ہو سکتا ہے کہ قرآن مجید میں اختلاف ہے۔

تمام کاتبوں کے سب صحیفے ایک جگہ جمع کر کے تمام حافظوں کے سامنے اگر درست کیا جائے تو اس وقت معلوم ہو سکتا ہے کہ ہرکاتب کن کن آیتوں کو یا سورتوں کو چھوڑا ہے ۔

اسی کام کو صحابی رسول زید بن ثابت کے ذریعے ابوبکرؓ نے کر دکھایا۔ 

نبی کریم ؐ کے گھر میں موجود صحیفے اور قرآن کریم کے کاتبوں کے پاس موجود صحیفے تمام کوزید بن ثابت نے ایک جا جمع کیا۔ حفظ کئے ہوئے لوگوں کو بلا کر ان کے حفظ کئے ہوئے آیتوں کو حروفی شکل عطا کیا گیا۔ 

انہیں ترتیب دے کر حفظ کئے ہوئے لوگوں کے حفظ کے مطابق صحیفوں کو درست کیا گیا۔

اصل کتاب جو حفاظت کی گئی تھی وہ دستاویز کی شکل میں ابوبکرؓ کے پاس محفوظ تھی۔ لیکن وہ لوگوں تک نہیں پہنچی۔ حفظ کر نے والے اگر مر بھی جائیں تو اس دستاویز کے ذریعے قرآن مجید تیار کیا جاسکتا ہے۔ 

ابو بکرؓ کی وفات کے بعدیہ دستاویز عمرؓ کے پاس آ پہنچی۔ عمرؓ کی وفات کے بعد وہ ان کی بیٹی اور نبی کریم ؐ کی بیوی حفصہؓ کے پاس رہی۔

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account