Sidebar

11
Sat, May
0 New Articles

‏332۔ کیا قبر کا عذاب ہے؟

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

‏332۔ کیا قبر کا عذاب ہے؟

‏بعض لوگ حجت کر رہے ہیں کہ قبرکی زندگی نہیں ہے۔ اس طرح دعویٰ کر نے والے ان آیتوں کو 36:51,52 پیش کر تے ہیں۔

ان آیتوں میں کہا گیا ہے ’’برے لوگ یہ کہتے ہوئے اٹھیں گے کہ ہمیں ہماری نیند سے کون جگایا؟ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس طرح جگائے جانے کے ‏بارے میں وہ افسوس کریں گے۔ 

اگر وہ قبر میں عذاب دئے جاتے تو وہ کیسے کہتے کہ ہمیں ہمارے نیند سے جگانے والا کون ہے؟ کسی قسم کا عذاب نہ ہو تا تو ہی وہ اس طرح سوال کر ‏سکتے تھے۔ 

جگائے جا نے کے بارے میں وہ افسوس اور فکر مند ہو ئے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ذرہ بھر بھی عذاب نہیں کئے گئے۔ ایسی رائے رکھنے والے دعویٰ ‏کر تے ہیں کہ قبر کی عذاب کے بارے میں حدیثیں رہنے کے باوجود ان آیتوں سے وہ براہ راست ٹکرانے کی وجہ سے اس پر ہم بھروسہ کر نے کی ‏ضرورت نہیں۔

اپنے دعوے کو زور دینے کے لئے وہ ایک اور دعویٰ پیش کر رہے ہیں۔ 

اللہ کسی کو کسی طرح کا عذاب نہیں دیتا۔ ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ قبر کی عذاب پر بھروسہ کر نا وہ اس رائے کو اپنے اندر چھپایا ہوا ہے کہ اللہ ظلم کرتا ‏ہے ۔ 

فرض کرو کہ آدم ؑ کے بیٹوں میں سے ایک اس کی غلطی کی وجہ سے قبر میں عذاب دیا جاتا ہے۔یہ بھی فرض کرو کہ دنیا فنا ہو نے کے دس دن پہلے ‏مرجانے والے پربھی اسی غلطی کی وجہ سے عذاب دیا جا تا ہے۔

دوسرا جو شخص ہے صرف دس دن ہی قبر کا عذاب چکھتا ہے۔ لیکن آدم ؑ کا بیٹا تو لاکھوں سالوں قبر کی عذاب میں مبتلا ہے۔ 

وہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک ہی جرم میں مبتلا دواشخاص میں ایک کو دس دن کی سزا اور دوسرے ایک شخص کو کئی سالوں کی سزا ، یہ کیسے انصاف ‏ہوگا؟ اس طرح کی بے انصافی اللہ نہیں کر سکتا۔ 

وہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ قبر میں عذاب کا ماننا قرآن کا انکار ہوگا اور اللہ کے عدل پر شک جیسے ہوگا۔

آؤ دیکھیں ان کے دعوے میں کتنی سچائی ہے؟

انسانوں کی اس سوال سے کہ ہماری نیند سے ہمیں کس نے جگایا؟ تواس کو اس طرح سمجھ لیناکہ قبر کی زندگی نہیں ہے، بالکل غلط ہے۔ قرآن مجید کو ‏پوری طرح سے تحقیق کئے بغیر صرف ان دونوں آیتوں کو اپنی دلی خواہش کے مطابق سمجھ لینا ہی اس دعوے کی وجہ ہے۔ 

ایک دنیا سے دوسری ایک دنیا میں پہنچنے والے پچھلی دنیا میں جو ہوا تھا اس کو بھول جا ئیں گے۔وہ بالکل بھول جائیں گے کہ ایسا ایک واقعہ ظہور ہوا ‏تھا۔اسی لئے قبر کی عذاب سے دوچار ہو نے والے پھرسے جگاکر دوسری ایک دنیا کو لے جائے جانے کے بعد قبر میں جو ہوا تھا اس کو بالکل بھول ‏جائیں گے۔ 

ایک دنیامیں جو ہوا تھاجب وہ دوسری دنیا کو بدلتے ہیں تو انسان بھول جائیں گے، اس کے لئے قرآن میں سندیں ہیں۔ 

پہلا انسان آدم ؑ کو پیدا کر نے کے بعد ان کے ذریعے سے پیدا ہو نے والے نسلوں کو ظاہر کر کے اللہ نے پوچھا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب ‏نے کہا کہ ہاں۔ اس کو اللہ نے اس آیت 7:172 میں فرمایاہے۔ 

اس طرح اللہ پوچھنے کے ساتھ ہم نے جوکہا ہاں، وہ ہمیں یاد نہیں۔ اللہ نے قرآن کے ذریعے ہمیں اشارہ کرنے کے بعد بھی ہمیں دھیان نہیں آرہا ‏ہے۔ اللہ کہنے کی وجہ سے ہم مانتے ہیں،اس کے سوائے ہمیں خود یا د آکر اس کو ہم نے نہیں مانا۔ 

اس آیت سے ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ ایک دنیا سے جب دوسری دنیا کو جاتا ہے تو پچھلی دنیا میں جو ہوا تھا ان تمام کو انسان سراسربھول جاتا ہے ۔

قبرکی زندگی الگ ہے۔ پھر سے جگائے جانے کے بعد اللہ کے سامنے جو کھڑا کیا جاتا ہے، وہ دنیا الگ ہے۔اس لئے اس دنیا سے جب دوسری ایک دنیا ‏کو جاتے ہیں توصرف انسان کے اس سوال کو کہ ہماری نیند سے ہمیں کس نے جگایا ، دلیل بنا کر قبر میں عذاب نہیں کہہ کر انکار کرنا جاہلیت ہے۔ 

عام طور سے انسان کوجب سخت جھٹکا لگتا ہے تو وہ پچھلی حالات کو بھول جاتا ہے۔ وہ پھر سے زندہ کئے جانے کے بعد انسان جو دیکھتا ہے وہ بھیانک ‏واقعے اس سے پہلے جو اس نے جھیلا تھا ان تمام عذابوں کو بالکل بھلا دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان یہ سوال اٹھاتا ہے کہ ہماری نیند سے ہمیں جگانے ‏والا کون؟ 

اس کوان آیتوں 22:1,2میں وضاحت سے بتا یاگیا ہے۔

یہ آیت بھیانک حالات کا سامنا کر نے والے کی فرمودات جیسی ہے۔ اللہ کہتا ہے کہ خوفناک حالات سے دوچار ہونے والااسی طرح آہ و زاری کر ‏ے گا۔ 

مزید یہ کہ آخرت میں اللہ کا انکار کرنے والے حقیقت کے خلاف اور بھی کئی ارشادات کہیں گے۔ ان کی فرمودات کو اللہ دکھانے سے اسی کوحقیقی ‏حال مان نہیں سکتے۔ 

آخرت میں جگائے جانے والے منکر صرف نیند سے جگنے کے بارے میں ہی نہیں کہیں گے۔ بلکہ وہ کہیں گے کہ دنیا میں یا قبر میں ایک گھنٹہ بھی ‏ٹہرے نہیں رہے۔ (30:55) یہ آیت کہتی ہے کہ اللہ پر قسم کھا کر کہیں گے۔ 

اس کو دلیل بنا کرکیا وہ کہیں گے کہ آدمی مرجا نے کے ایک گھنٹہ میں قیامت آجا ئے گی؟ یا صدمہ کی آہ و زاری کہیں گے؟ 

قرآن میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ آخرت میں دئے جانے والے سزا کے علاوہ دوسری سزائیں بھی ہیں، ان لوگوں کا یہ دعویٰ بھی جاہلیت کی اظہار ہی ‏ہے۔ 

‏’’قبر کی عذاب ‘‘کا یہ لفظ قرآن میں کہا نہیں گیا۔ اس طرح کے عذاب کے بارے میں دوسری لفظوں میں کہا گیا ہے۔ اس کو نہ جاننے کی وجہ ہی ‏سے اس طرح حجت کر رہے ہیں۔ 

یہ آیتیں 40:45,46 کہتی ہیں کہ قیامت کا دن آنے سے پہلے فرعون کی جماعت دوزخ کی آگ کے سامنے صبح اور شام یعنی ہر روز دکھائے جائیں ‏گے۔ اور قیامت کے دن تو اس سے زیادہ عذاب ہوگا۔ 

یہ آیتیں واضح انداز سے کہہ رہی ہیں کہ قیامت کے دن سخت عذاب میں مبتلا کر نے سے پہلے صبح اور شام وہ لوگ ہر روز عذاب میں مبتلا کئے جاتے ‏ہیں۔

اسی کی تشریح میں نبی کریم ؐ نے قبر کی عذاب کے بارے میں فرمایاتھا۔ وہ حدیثیں تمام ان آیتوں کی تفصیل ہیں، اختلاف نہیں۔ 

یہ صرف فرعون کی جماعت کی حالت ہی نہیں بلکہ تمام انسانوں کا حالت ہوگا۔

یہ آیتیں 8:50-52 کہتی ہیں کہ ظالموں کی جانوں کو جب فرشتے قبض کر تے ہیں تو انہیں وہ ماریں گے۔ اور کہیں گے کہ جھلسا دینے والا عذاب ‏چکھو۔اس طرح کہنے کے بعد اللہ فرمائے گا کہ فرعون کی جماعت کو جیسے کیا جاتا ہے ایسے ہی انہیں بھی کیا جائے گا۔اس سے ہم جان سکتے ہیں کہ ‏صرف فرعون کی جماعت ہی کو نہیں بلکہ سب لوگوں کو قبر کا عذاب ہے۔ 

یہ سوال کہ بعض لوگوں کو زیادہ دن اور بعض لوگوں کو کم عذاب دیا جانا کیا انصاف ہے، غلط ہے۔یہ جاننے کے بعد کہ اللہ کا انتظام یہی ہے، اس ‏طرح کا سوال نہیں اٹھنا چاہئے۔ 

اگر ایسا سوال اٹھاؤگے تو اس کے لئے بھی قرآن مجید میں ٹھیک جواب موجود ہے۔ فرض کرو کہ سو سال پہلے ایک شخص کوئی گناہ کر تا ہے ، اسی طرح ‏آج بھی کوئی گناہ کر تا ہے۔

گناہ کے لحاظ سے دونوں ایک ہی جیسے رہنے کے باوجوداس گناہ میں دونوں کے درمیان فرق موجود ہے۔ 

سو سال پہلے گناہ کر نے والا اس کے بعد آنے والے کو اسی طرح گناہ کر نے کی ہمت دلا کر جاتا ہے۔ دوسرا جو ہے اس گناہ کوکرنے میں ایک نمونہ بن ‏جاتا ہے۔ 

سو سال کے بعد جو گناہ کر تا ہے اس کے لئے یہ راہنما بن جاتاہے۔ 

اسی لئے وہ جو گناہ کر تا ہے اس کے لئے بھی سزا بھگتنا ہے اور جو اتنے لوگوں کو گمراہ کیا اس کے لئے بھی اس کو سزا بھگتنا ہے، اس کو قبر کی عذاب ہی ‏سے انصاف دلا سکتے ہیں۔

آدم کا بیٹا جو قتل کیا تھا وہی دنیا کے سارے قتل کو پیش رو تھا۔قاتلوں کا راہنما وہی ہے۔ اس لئے دوسروں سے زیادہ عذاب کا مستحق وہی ہے، یہی ‏ٹھیک انصاف ہوگا۔ 

اگر یہ سوچیں کہ کتنے آدمیوں کو گمراہ کیا تھا تو ایک شخص زیادہ دن اور دوسرا شخص کم دن قبرمیں عذاب ڈھونے کوکوئی عقلمند نہیں کہہ سکتا کہ یہ ‏ناانصاف ہے۔ 

اس کے بارے میں اور زیادہ جاننے کے لئے حاشیہ نمبر 166، 349وغیرہ دیکھیں!  

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account