Sidebar

29
Sun, Jun
0 New Articles

‏386۔ طلاق کے لئے دو گواہ

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

‏386۔ طلاق کے لئے دو گواہ

‏اس آیت 65:2 میں طلاق کی اہم شرائط کو اللہ فرماتا ہے۔ یعنی وہ شرط یہ ہے کہ طلاق دیتے وقت دو راست باز گواہ ہو نا ضروری ہے۔ 

ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی سماج میں ٹیلی فون کے ذریعے طلاق ، خط کے ذریعے طلاق دیا جارہا ہے اور اس کو علماء بھی صحیح قرار دے رہے ہیں۔ 

دو گواہوں کے سامنے خط لکھ کر یا دو گواہوں کے سامنے ٹیلی فون سے بات کر کے طلاق دئے جانے کو وہ سمجھ رہے ہیں گواہوں کا شرط پورا ہوگیا۔ 

طلاق دینے والا اور طلاق دئے جانے والی عورت دونوں کے درمیان طلاق ہونے کو آنکھوں کے سامنے دیکھنے والے ہی اس کو گواہ بن سکتے ہیں۔ 

اس لئے یہ جانے بغیر کہ مخالف سمت میں رہنے والی عورت کون ہے اور کیا وہ اسی کی بیوی ہے اور یہ بھی جانے بغیر کہ کیا وہ ٹیلی فون کے ذریعے اپنی ‏ہی بیوی سے بات کیا ہے، کوئی بھی گواہ بن نہیں سکتا۔ 

چند لوگوں کویہ بھی شک ہے کہ ویڈیو کانفرنس کے ذریعے دو گواہوں کو رکھ کر طلاق دیا جائے تو کیا وہ جائزہے؟ ویڈیو کے ذریعے ایک شخص طلاق ‏دینے کو اور اس کے لئے دو گواہ موجود رہنے کو یہیں سے دیکھ سکتے ہیں۔ اس لئے چند علماء کہتے ہیں کہ یہ جائز ہے۔ یہ بالکل غلط ہے۔ کیونکہ انہوں ‏نے پوری طریقے سے تحقیق نہیں کی۔

اسکرین میں طلاق دینے والے کو اور ان دونوں گواہوں کو ہی دیکھتے ہیں۔ وہ کس پس پردہ میں ہیں؟ پردہ کے پیچھے سے کیا کوئی انہیں دھمکی دینے کی ‏وجہ سے ویسا کہہ رہے ہیں؟ کیا ہوش و حواس سے وہ کہہ رہے ہیں؟ یا کسی گرافکس کے ذریعے اس میں تبدیلی کیا گیا ہے؟ کیا وہ براہ راست ٹیلی ‏کاسٹ کیا جارہا ہے؟ یا جو پہلے ہی سے نشر ہوا ہے اس کو دکھایا جا رہا ہے؟ ایسے کئی شبہات رہنے کی وجہ سے ایسی طلاق جائز نہیں ہوگی۔ 

کسی شرط کے بغیر براہ راست دونوں گواہوں کے سامنے ہی طلاق دینا چاہئے۔ اگر ایسا نہ ہوتو وہ طلاق نہیں کہلائے گا۔ 

عارضی طور پر بستر الگ کرنا، نصیحت کر نا، دونوں خاندانوں کے درمیانی منصف کے ذریعے نیک نہاد کے لئے کوشش کر نا وغیرہ ہو نے کے بعد ہی ‏طلاق کی طرف جانا چاہئے۔ کیایہ سب کارروائی اختیارکی گئی ، اس کو جاننے والاہی گواہ بن سکتا ہے۔ 

دونوں خاندانوں سے قریب رہنے والا یا دونوں خاندانوں سے اس کے متعلق بات کر نے والا ہی مندرجہ بالا کارروائی کو اس نے کیا یا نہیں معلوم ہو ‏سکتا ہے۔ 

مزید یہ کہ طلاق کے بعد بیوی کو معروف کے طور پررقم ادا کر نے کی ذمہ داری بھی طلاق دلانے والے کی ذمہ داری ہے۔ اس کے بارے میں ‏حاشیہ نمبر 74میں واضح کیا گیا ہے۔اس کو اسلامی حکومت یاجماعت ہی دلانا چاہئے۔اس لئے جماعت کے سامنے ہی دو گواہ گواہی دینا چاہئے۔ 

اس سے ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ خط کے ذریعے، یا یس ایم یس کے ذریعے، یا اِی میل کے ذریعے، یا ویڈیو کانفرنسی کے ذریعے طلاق کہنا اللہ کے ‏قانون کا مذاق اڑانا ہوگا۔ 

طلاق کے پہلے جس آداب کی تعمیل کرنا ہے اس کی پیروی کی گئی یا نہیں، اس کو جانے بغیر گواہ دینے والا ناانصاف کی گواہ دیتا ہے۔ اس لئے دونوں ‏کے مسئلہ کے متعلق نہ جانا ہوا شخص طلاق کے لئے گواہ نہیں بن سکتا۔ 

ایک بیٹے کوجائداد دے کر دوسرے بچوں کو محروم کر دینے والے ایک صحابی نے جب نبی کریم ؐ کو گواہ بنایا تونبی کریم ؐ نے یہ کہہ کر گواہ بننے سے انکار ‏کردیا کہ میں ناانصافی کے لئے گواہ نہیں بن سکتا۔ (دیکھئے: بخاری: 2650)

ایک شخص دین کے احکام کی نگہداشت کئے بغیر طلاق کہا تو اس کے لئے گواہ بن کر رہنا بھی اسی قسم کا ہے۔ 

اس لئے اس قانون کو نگہ میں رکھیں تو جلدی میں ہو نے والی کئی طلاقوں سے بچ سکتے ہیں۔ 

طلاق کے بارے میں اور معلومات کے لئے حاشیہ نمبر 66، 69، 70، 74، 402، 424وغیرہ دیکھیں۔  

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account