484۔ تکلیف پہنچی تو پریشان نہ ہوں
ان آیتوں2:124، 2:155، 2:249، 3:152، 3:154، 3:186، 5:41، 5:48، 5:94، 6:53، 6:165، 7:163، 7:168، 9:126، 11:7، 16:92، 18:7، 20:40، 20:85، 20:90، 20:131، 21:35، 21:111، 22:11، 23:30، 25:20، 27:40، 27:47، 29:3، 33:11، 38:24، 38:34، 39:49، 44:33، 47:4، 47:31، 54:27، 60:5، 64:15، 67:2، 68:17، 72:17، 76:2، 89:15، 89:16 میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں انسانوں کو جو خوش نصیبی اور تکلیفیں عطا کی گئی ہیں وہ سب ایک آزمائش ہیں۔
مومنوں اور کافروں کوپیش آنے والے مختلف قسم کی پریشانیوں کو اس کے ذریعے حل بتایا گیاہے۔
برے لوگ خوش حال زندگی جی رہے ہیں اور اچھے لوگ تکلیفیں جھیل رہے ہیں ۔ اس کو دیکھنے کے بعد بعض لوگوں کو یہ الجھن پیدا ہو سکتا ہے کہ اگر اللہ ہو تا تو اس طرح ہو سکتا تھا؟
کسی قسم کی گناہ نہ کر نے والے پیدا ہو نے کے وقت ہی مختلف خامیوں کے ساتھ پیدا ہو تے ہیں۔ بعض لوگوں کو یہ پریشانی ہے کہ کوئی بھی گناہ نہ جاننے والوں کو یہ حالت کیوں ہے؟
اس الجھنوں سے چھٹکارا پانے کے لئے اسلام ایک صریح اصول رکھا ہے۔
اس دنیا میں انسان کیسے جی رہا ہے ، اس کو آزمانے کے لئے ہی اللہ نے انسان کو پیدا کیا۔
انسان مر نے کے بعد پھر سے زندہ اٹھایا جائے گا۔ اسی وقت وہ اپنے کئے ہوئے نیک کاموں کا انعام پائے گا۔ اسی طرح برا آدمی اپنے کئے ہوئے برے اعمال کا سزا پائے گا۔
یہ دنیا ایک آزمائشی مقام رہنے کی وجہ سے یہاں بعض برے لوگ خوش حال زندگی بسر کررہے ہیں اوربعض نیک لوگ تکلیف اٹھا رہے ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ اس ظاہری حال دیکھ کر دھوکہ نہ کھا جائیں۔
کیونکہ ہر انسان کو اللہ آزماتا ہے۔ تمام لوگوں کو ایک ہی انداز سے آزمانے کے بجائے مختلف قسم سے آزماتا ہے۔
ایک شخص کو سو فیصد خوشیاں عطا کر کے ایک فیصد بھی اگر پریشانی نہیں ہو تی تو اسی وقت وہ تکلیفیں واقع ہو نے میں کچھ معنی ہوگا۔
لیکن کسی بھی انسان کو اللہ نے پوری خوشی عطا نہیں کی۔ ایسا کوئی بھی انسان دنیا میں نہیں ہے جوایک بھی تکلیف نہ رکھتا ہو۔
کتنی بھی خوش حالی ایک شخص کو حاصل ہو ، اگر ہم اس کو غور سے دیکھیں توہمیں احساس ہوجائے گا کہ جو آسودگیاں اس کو نہیں دیا گیا ہے وہ ہہیں دیا گیا ہے۔
محتاجی، بد صورتی، کمزوری، لا ولد، ظالموں کے ظلم سے دب کر رہنا، ادا نہ کرنے کی حد تک قرضداری، ناموزوں شریک حیات، غیر اخلاق بچے، قریبی رشتوں کی موت، جسمانی نقص، یادداشت کی کمی، غورو فکرسے نابلد، لاعلمی ،ایسے ہزاروں کوتاہیاں انسانوں میں موجود ہیں۔
ایک شخص کو اللہ غریبی اور بیماری دیا ہوگا۔
لیکن دولت اور صحتمندی دئے گئے انسان کو دوسرا کچھ نقص ہوگا۔ انہیں ناموزوں بیوی یا بد اخلاق بچے ملے ہوں گے۔ یا دوسرا کچھ اور کمی عطا کیا ہو گا۔
اللہ اگر خوشی بھی دے تو اس وقت انسان کا عمل کیسا ہے ، یہ آزمائش کر نا ہی اللہ کا منشا ہے۔ اگر تکلیفیں دیتا ہے تو اس کا بھی آزمائش ہی ہے۔
آزمائش کے وقت اللہ ہمیں زیادہ تکلیف دیتا ہے،ہم اگر اس کو برداشت کر لیں توہماری اس تکلیف کے لائق بھلائی کو آخرت میں کسی بھی کمی کے بغیر اللہ عطا فرماتا ہے۔ اگر ہم نیکی کی زندگی اختیار کریں تو ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ آخرت میں ہمارے لئے بے شمار انعامات منتظر ہوں گے۔ اس طرح یقین رکھنے سے نیک زندگی بسر کر نے کے لئے اعتقاد اور بھی بڑھے گا۔
اس دنیا میں نیک بن کر جیتے وقت اگر تکلیفیں پیدا ہوں تو نیک بن کر جینے کا انعام ہم دوسری دنیا میں حاصل کر نے والے ہیں۔ اس دنیا میں آرام دہ زندگی بسر کر نے کے لئے راست بازی کی حدود کو اگر ہم پار کر دیں تو اس کی سزا کو ہم دوسری دنیا میں بھگتنا ہی پڑے گا۔یہ اعتقاد ہمیں راہ بدلنے سے روکے گا۔
اس کے بارے میں نبی کریمؐ نے ہمیں واضح انداز سے نصیحتیں کی ہیں۔
نبی کریم ؐ نے فرمایا :
جس پراللہ بھلائی چاہتا ہے اس کو آزمائش میں مبتلا کر دیتا ہے۔ (بخاری: 5645)
نبی کریم ؐ نے فرمایا:
ایک مسلمان کو کانٹا چبھنے سے لے کر اس کو واقع ہو نے والے مصیبت، بیماری، دکھ، فکر، دقت اور دل آزاریاں وغیرہ کچھ بھی ہوں ، اس کے بدلے میں اس کی گناہوں سے بعض کو اللہ معاف کئے بغیر نہیں رہتا۔
(بخاری: 5642)
عطاء بن ابی رباح ؒ نے فرمایا:
ابن عباسؓ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں تمہیں ایک جنتی عورت کو دکھاؤں؟ میں نے کہا کہ ہاں، دکھائیے! تو انہوں نے ایک کالے رنگ کی عورت کو دکھایا۔ اس عورت نے ایک بار نبی کریمؐ کے پاس آکر کہنے لگی کہ ’’میں مرگی کی بیماری سے(اکثر) مبتلا ہو جاتی ہوں۔ اس وقت( میرے جسم سے لباس ہٹ کر) میرا جسم کھل جا تا ہے۔ اس لئے میرے لئے دعا کیجئے!‘‘ نبی کریمؐ نے کہا کہ ’’اگر تم چاہو تو صبر سے رہ سکتے ہو۔ (اس کے بدلے میں) تم کو جنت ملے گی۔ اگر تم چاہو تو تمہیں صحت عطا کر نے کے لئے اللہ سے دعا کرتا ہوں۔ ‘‘ تو اس عورت نے کہا کہ میں صبرسے رہ جاتی ہوں۔ لیکن (مرگی آتے وقت لباس ہٹ کر) میرا جسم کھل جا تا ہے۔ اللہ سے دعا کیجئے کہ اس طرح میرا جسم کھلنے نہ پائے۔‘‘اسی طرح نبی کریمؐ نے اس عورت کے لئے دعا فرمائی۔
(بخاری: 5652)
ایک مسلمان جنت میں جانے کے لئے جس طرح نیک عمل کی ضرورت ہے اسی طرح صبر اختیار کر نے سے بھی جنت میں داخل ہو سکتے ہیں۔اس کے لئے یہ فرمان رسول دلیل ہے۔
نبی کریم ؐ نے فرمایا:
اللہ نے فرمایاکہ میں میرے بندے کی پسندیدہ دو چیزیں (آنکھوں کوچھین کر) آزماتاہوں ، اگر وہ اس کو برداشت کر لے تو اس کے بدلے میں اس کو میں جنت عطا کرتا ہوں۔
(بخاری: 5653)
اس دنیا میں اللہ نے جو دولت بخشی ہے اگر اس سے ہم محظوظ ہونا چاہیں تو اس کے لئے آنکھیں بہت ضروری ہیں۔ آنکھیں رہنے کی وجہ ہی سے ہم زیادہ خرچ کر تے ہیں۔ اور ہم خوبصورت کپڑے خریدتے ہیں۔ اور خوبصورت گھر بناتے ہیں۔ ہر چیز کو خوبصورت منتخب کر نے کی وجہ آنکھیں ہی ہیں۔
اتنی بڑی خوش نصیبی دوسروں کو میسر ہے اورہمارے پاس نہیں ہے توہماری دکھ کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ آنکھیں کھو نے کے بعد بھی اس کو برداشت کر تے ہوئے نیک زندگی گزاریں تو اس کے لئے اللہ جنت عطا کر تا ہے۔
نبی کریمؐ نے فرمایا:
مومنوں کی حالت دیکھ کر مجھے حیرت ہو تی ہے۔ ان کی (زندگی کی) تمام چیزیں (انہیں) بھلائی ہی ہو تی ہیں۔ مومنوں کے سوا دوسرے کسی کو یہ نہیں ملتی۔ انہیں کوئی خوشی پیدا ہو تی ہے تو وہ شکر ادا کر تے ہیں۔ وہ انہیں بھلائی ہو تی ہے۔ اگر انہیں کوئی غم ملتی ہے تو اس پر وہ صبر کر تے ہیں۔ وہ بھی انہیں بھلائی ہوتی ہے۔
(مسلم: 5726)
کچھ خوف سے، بھوک سے، دولت سے، جانوں سے اور آمدنیوں میں گھٹاکر تمہیں ہم آزمائیں گے۔ صبر کر نے والوں کو خوشخبری سنا دو۔
قرآن مجید 2:155)
سعدؒ نے فرمایا ہے:
میں نے نبی کریم ؐ سے پوچھا کہ ’’اے اللہ کے رسول! لوگوں میں بہت زیادہ کون آزمائے گئے؟ ‘‘ تو نبی کریم ؐ نے فرمایاکہ ’’انبیاء کو ، پھر ان جیسے رہنے والوں کو، پھر ان کے جیسے رہنے والوں کو۔ ہر ایک انسان اس کے دین میں جتنی لگاؤ ہے اس حد تک وہ آزمائے جائیں گے۔ اگر اس کے دین کی گرفت مضبوط ہو تو اس کی آزمائش بھی بڑی ہو گی۔ اگر اس کے دین کی گرفت کمزور ہو تو اس کے دین کی گرفت کی حد تک وہ آزمایا جائے گا۔ ایک بندہ زمیں پر جب تک چلتے پھر تے رہیگا اور جب تک اس کا سارا گناہ ختم نہیں ہوگااس سے کوئی آزمائش نہیں چھوٹے گی۔
ترمذی: 2322
اس حقیقت کو اگر سمجھ لیں توہمیں یہ عقیدہ دل کو اطمینانی بخشے گا کہ اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ہم میں جو کمی ہیں اسی طرح دوسروں کو بھی دوسری قسم کی کمی پائے جاتے ہیں۔ اگر ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ دوسروں سے زیادہ کمی ہمارے ہی پاس ہے توسمجھو کہ آخرت میں انعامات زیادہ ہو ں گے۔
مزید یہ کہ ایک اور وجہ سے بھی اللہ نے انسانوں میں کمی رکھا ہے۔
یہ دنیا اگر ٹھیک طور سے جاری رہنا ہو تو کمی اور زیادتی سب کے لئے برابر تقسیم ہو نا چاہئے۔
اگر سب کو ایک ہزار ایکڑ زمین دیا گیا تو کوئی کام کے لئے نہیں جائے گا۔ ہماری زمین کو ہم ہی جوت کر کھیتی باڑی کر نے کے لئے ہم طاقت بھی حاصل نہیں کریں گے۔ تمام لوگ غذا کے بغیرہی مر جائیں گے۔
اسی لئے ہر ایک کو ایک الگ قسم کی کمی اور زیادتی دے کر اللہ نے مہربانی کی ہے۔
مریض کے ذریعے طبیب کی زندگی چل رہی ہے۔ طبیب کے ذریعے بیوپار ی کی زندگی چل رہی ہے۔ بیوپاری کے ذریعے کسان اور صانع کی زندگی چل رہی ہے۔ اس طرح کی سلسلہ وار زندگی کے ذریعہ سے ہی دنیا متحرک ہو نے کے لئے اللہ نے اس طرح کاانتظام کیا ہے۔
484۔ تکلیف پہنچی تو پریشان نہ ہوں
Typography
- Smaller Small Medium Big Bigger
- Default Meera Catamaran Pavana
- Reading Mode