291۔ بغیر پاکیزگی کے کیا قرآن چھو سکتے ہیں؟
اس آیت 56:79 میں کہا گیا ہے کہ پاکیزہ لوگوں کے سوا اس کو کو ئی نہیں چھوئیں گے ۔
اس آیت کو سند بنا کر بعض لوگ دعویٰ کر تے ہیں کہ ناپاک لوگ کوئی بھی قرآن کو چھونا نہیں۔
اس آیت کو بنیاد بنا کر وہ لوگ کہتے ہیں کہ وضو سے پاکیزگی اختیار نہ کر نے والے ، غسل کے فرض سے رہنے والے ، حیض میں رہنے والی عورتیں، اور منکر اسلام اس قرآن کو چھونا نہیں۔
انہیں جیسے اگر قرآن بھی کہتا تو وہ اسلام کا قانون کہلائے گا،اس میں کوئی اختلاف کی گنجائش نہیں۔ لیکن یہی حقیقت ہے کہ وہ لوگ اس آیت میں جو بولا نہیں گیا ہے اس کو گھما پھرا کر اس آیت کے اندر گھسانے کی حجت کررہے ہیں۔
ان کا جو دعویٰ ہے کس طرح غلط ہے ، یہ دیکھنے کے بعد اس کا ٹھیک مطلب کیا ہے ، دیکھیں!
نبی کریم ؐکو قرآن مجید تحریری انداز میں نازل نہیں کیا گیا۔ اس کو ہم نے حاشیہ نمبر 152 اور312 میں واضح کی ہے۔
جب قرآن مجید تحریری انداز میں نہیں اتاراگیا تو جو تحریری انداز میں نہیں اترا اس کو نہ چھو سکتے کہنے سے وہاں چھوئے جانے کی بات ہی نہیں ہے۔
چھونے کی طرح اگر قرآن مجید اترا ہوتا تو اسی وقت اس قرآن کو چھونا نہیں کہہ سکتے تھے۔
قرآن مجید نبی کریم ؐ کو پڑھ کر سنایا گیا، اس کے سوائے تحریری انداز میں نازل نہیں کیا گیا۔
اللہ کی طرف سے نبی کریم ؐ جب بھی پیغام حاصل کر تے کاتبوں کے پاس دے کر فوراً لکھ لیا کرتے تھے، اسی سے یہ تحریری انداز اختیار کی۔
قرآن اگر کتابی شکل میں نازل ہوا ہوتا تو اس کتاب کو دکھا کر کہہ سکتے تھے کہ اس کو چھوئیں گے نہیں۔
صوتی شکل میں ایک چیز کو کہنے کے بعد کوئی نہیں کہے گا کہ اس کو چھونا نہیں۔ کیونکہ آواز کو کیسے چھو سکتے ہیں؟
اگر ایسا ہو تو چھوئیں گے نہیں ، کس کی طرف اشارہ ہے۔
اسلام کے عقیدے کے مطابق اللہ کے پاس ایک دفتر ہے۔ جو کچھ ہوا تھا اور جوکچھ بھی ہونے والا ہے تمام باتیں اس دفتر میں درج کیا گیا ہے۔ اس دفتر میں قرآن مجید بھی درج کیا ہوا ہے۔ اس دفتر کو فرشتے جو پاکیزہ ہیں، ان کے سوا کوئی شیطان اس کو چھو نہیں سکتا۔
(اس محفوظ دفتر کے بارے میں جاننے کے لئے حاشیہ نمبر 157، 492دیکھیں!)
اس محفوظ دفتر ہی سے اس قرآن کو لایا گیا۔
اس کو چھو ئیں گے نہیں، اسی محفوظ دفتر ہی کی طرف اشارہ ہے۔
اس کوہم ہماری قیاس کے ذریعے نہیں کہہ رہے ہیں۔ قرآن مجید بھی ایسا ہی کہتا ہے۔ اس کو نہیں چھوئیں گے، صرف اس جملے کو دیکھنے کے بجائے اس سے پہلے جو دو آیتیں ہیں اس سے ملاکر دیکھیں تو سمجھ میں آ سکتا ہے۔
اس آیت سے پہلے جو آیتیں ہیں وہاں سے دیکھئے۔
77، 78۔ یہ عظیم الشان قرآن ایک محفوظ دفتر میں ہے۔
79۔ پاکیزہ لو گ کے سوا کوئی نہیں چھوئیں گے۔
80۔ پروردگار عالم کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔
کہا گیا ہے کہ وہ اس کو نہیں چھوئیں گے ۔ اس کو جوکہا گیا ہے کہ وہ کس کی طرف اشارہ ہے؟ یہی مسئلہ کو اب سلجھانا ہے۔
’اس کو‘جب ہم کہتے ہیں تو اس کے بارے میں پہلے ہی ہم بات کئے ہوں گے یا لکھے ہوں گے۔لوگ اچھی طرح سمجھ جائیں گے کہ ہم کس کے بارے میں پہلے بات کئے ہیں۔
یہ آیت کہتی ہے کہ ’اس کو وہ نہیں چھوئیں گے‘ تواس سے پہلے کی آیت میں اس کے بارے میں اشارہ ہوا ہوگا۔ اس طرح اگر ہم تفتیش کر یں تو ہم جان سکتے ہیں کہ وہ کس طرف اشارہ ہے۔
ان آیتوں 56:77,78 میں کہا گیا ہے کہ’’یہ محفوظ دفتر میں موجود عظیم الشان قرآن ہے‘‘۔
دوسری آیت میں کہا گیا ہے کہ اس کو نہیں چھوئیں گے۔ چنانچہ محفوظ دفتر میں موجود قرآن جہاں سے نبی کریم ؐ پرنازل کیا گیا وہاں موجود اصل کاپی ہی کو ’’اس کو‘‘ کہا گیا ہے۔
اس لئے ’’ اس کو نہیں چھوئیں گے‘‘جو کہا گیا ہے کہ وہ تقریری شکل کا قرآن کی طرف اشارہ نہیں، بلکہ وہ جہاں سے نازل ہوا اسی اصل دفتر کی طرف اشارہ ہے۔
اس لئے اس آیت کو دلیل بنا کر اس طرح دعویٰ کر نا کہ پاکیزگی کے بغیر قرآن مجید کو چھونا نہیں، غلط ہے۔
قرآن مجید سب لوگوں کو راہ دکھانے کے لئے نازل ہوا ہے۔ ہر حالت میں اور ہر آدمی پڑھنے کے لئے یہ نازل ہوا ہے۔
غیر مسلم اس قرآن کو پڑھیں گے ہی تو وہ لوگ سیدھے راستے پر آسکتے ہیں۔ اگر ان سے کہیں کہ تم پاک نہیں ہو، اس لئے تم قرآن کو چھونا نہیں تو قرآن جس مقصد سے اللہ نے اتارااس مقصد کو بگاڑنا ہوجا ئے گا۔
نبی کریم ؐ نے کئی ممالک کے حکمرانوں کو قرآنی آیتیں لکھ بھیج کر اسلام کی طرف دعوت دی تھی۔
(دیکھئے بخاری: 7، 2941،4553)
نبی کریم ؐکو معلوم تھا کہ وہ بادشاہ اپنے ہاتھوں سے چھو کرہی اس قرآنی آیتوں کو پڑھیں گے، ایسے میں اس طرح کہنا کہ قرآن مجید کو پاکیزگی کے ساتھ ہی چھونا ہے ، غلط ہے۔ اس طرح کہنا قرآن سے لوگوں کو اجنبیت پیدا کر دے گی۔
یہ آیت کسی حالت سے قرآن کو پاکیزہ لوگ ہی چھو ناکہنے کے لئے دلیل نہیں ہے۔
ہر حالت میں، ہر انسان قرآن مجید کو چھو سکتے ہیں، پڑھ سکتے ہیں، یہی بات ہمیں قرآن کریم سے حاصل ہو تی ہے اور نبی کریم ؐ کے طور طریق سے معلوم ہوتی ہے۔
بغیر وضو کے قرآن مجید کوچھونا نہیں، اس مطلب سے چند حدیثیں موجود ہیں۔ وہ تمام ضعیف حدیثیں ہیں۔
اس کے متعلق تفصیل سے جانیں۔
1۔ حکیم بن حسامؓ فرماتے ہیں:
اللہ کے رسول ؐ نے مجھے ملک یمن کو بھیجا تو کہا تم سوائے پاکیزہ رہنے کے قرآن کو چھونا نہیں۔ (حاکم)
اس حدیث کو سوید بن ابی حاتم نے کہا ہے۔ انہیں نسائی اور ابوصرعہ وغیرہ کمزور کہا ہے۔ابن حجر نے کہا ہے کہ وہ بہت ہی ناقص یاد داشت والے تھے۔ ان سے کئی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ نووی نے اپنی الخلاصہ نامی کتاب میں لکھا ہے کہ یہ ضعیف حدیث ہے۔ فن حدیث کے عالموں نے کہا ہے کہ اس کو معتمد حدیث کہنے والے حاکم خود معتمد لوگوں کو منتخب کر نے میں بے پرواہی برتنے والے ہیں۔
عبد اللہ بن عمرؓ نے کہا:
اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا کہ پاکیزہ لوگوں کے سوا قرآن کو چھونا نہیں۔ (طبرانی)
اس پیغام میں سعید بن محمد حصہ پائے ہیں۔ کوئی بھی علماء ان کے بارے میں معتمد نہیں کہا۔
مزید یہ کہ اس روایت میں ابن زریج نامی شخص بھی جگہ پایا ہے۔ وہ معتمد رہنے کے باوجود تدلیس میں چھپانے کا کام کردئے۔ ان جیسے اشخاص براہ راست سن کراگر کہتے کہ میں نے سنا، انہوں نے فرمایا تو اس کو اختیار کرسکتے ہیں۔
مندرجہ بالا روایت میں سلیمان بن موسیٰ سے وہ براہ راست سننے کا کوئی جملہ پایا نہیں گیا ہے۔ اس وجہ سے بھی یہ کمزور خبر ہے۔
2۔ عثمان بن ابی العاصؓ نے فرمایا ہے :
نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ تم پاکی کی حالت میں رہنے کے سوائے قرآن کو مت چھونا۔
اس روایت میں اسماعیل بن رافع جگہ پائے ہیں۔
ابن حجر، یحیےٰ بن معین، نسائی،ذہفی، احمد بن حنبل، یعقوب بن سفیان، ابن عدی، دارخطنی، ابن قراش، ابو حاتم اور محمد بن سعد وغیرہ نے کہا ہے کہ یہ خبر ضعیف ہے۔ صرف بخاری ہی ان کو معتمد کہا ہے۔ بخاری کے سوا دوسرے تمام علماء ایک ساتھ مل کر انہیں کمزور کہنے کی وجہ سے اور انہیں حفظ کے بارے میں بھی ٹھیک نہیں سمجھنے کی وجہ سے وہ کمزور راوی کہلاتے ہیں۔
ان کے پاس جو کمزوریاں تھیں اس کو بخاری نہ جاننے کی وجہ سے غلطی سے انہیں معتمد کہہ دیا۔ اس لئے یہ روایت بھی غلط ہے۔
3۔ عبد اللہ بن ابی بکر بن محمد بن امر بن حزم نے کہا:
نبی کریم ؐ نے امر بن حزم کو جو خط لکھا تھا اس میں کہا گیا تھا: پاکیزہ لوگوں کے سوا قرآن مجید کو کوئی نہ چھوئے۔
مراسیل ابی داؤد۔(90)
یہ خبر پورے راویوں کے سلسلے کے بغیرہے۔
اس خبر کے بارے میں دارخطنی کہتے ہیں کہ یہ بغیر سلسلہ کے قسم کا خبر ہے۔ اس میں پائے گئے راوی معتمد لوگ ہیں۔
راوی معتمد ہو نے کے باوجود درمیان میں راوی چھوٹ جانے کی وجہ سے وہ حدیث ضعیف کہلاتی ہے۔
اس خبر کو عبد اللہ بن ابی بکر فرمایا ہے۔ یہ صحابی نہیں۔ نبی کے زمانے میں رہنے والے بھی نہیں تھے۔دارخطنی نے واضح کی ہے کہ ایسے آدمی نبی کے ساتھ تعلق رکھنے والی خبروں کو اگر روایت کرتا ہے تو وہ مرسل یعنی بغیر سلسلہ کا خبر ہوگا۔ ابو داؤد بھی اس خبر کو مرسل خبر کہا ہے۔
درمیان میں راویوں کا سلسلہ جو چھوٹا نہیں ان راویوں میں سلیمان بن ارقم بھی ایک ہیں۔ لیکن اکثر علماء ان کے بارے میں کہا ہے کہ وہ پوری طرح سے کمزور ہیں۔
اس لئے پاکی کے بغیر قرآن کو چھونا نہیں ، اس کی سند میں کوئی بھی خبر نہیں ہے۔ غیر مسلم، حیض والی عورتیں، غسل کی فرض والے اور بغیر وضو والے کوئی بھی ہو قرآن کو چھو سکتے ہیں اورپڑھ سکتے ہیں۔یہی رائے ٹھیک ہے۔
291۔ بغیر پاکیزگی کے کیا قرآن چھو سکتے ہیں؟
Typography
- Smaller Small Medium Big Bigger
- Default Meera Catamaran Pavana
- Reading Mode