Sidebar

29
Sun, Jun
0 New Articles

‏293۔ اسلام کا جانبدارانہ عقیدہ

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

‏293۔ اسلام کا جانبدارانہ عقیدہ

‏اس آیت 70:4 میں کہا گیا ہے کہ ایک دن جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔ 

ایک دن کی مقدار پچاس ہزار سال یعنی 1,82,50,000دن کے برابر ہے، اس حقیقت کو گذشتہ صدی کے پہلے گزرے ہوئے لوگ سمجھ ‏نہیں سکتے تھے۔ 

دن جو ہے وہ ایک شخص کی سفرکی ر فتار کے لحاظ سے تبدیل ہوتی ہے۔ اس کو آئنسٹین انکشاف کر نے سے پہلے لوگوں کا عقیدہ تھا کہ دن جو ہے وہ ‏تبدیل نہیں ہوگی۔ 

مثال کے طور پر 25 سال کا ایک شخص روشنی کی رفتارسے اوپر کی طرف سفر کر تے جا رہا ہے۔ (روشنی کی رفتار سکنڈ کو تین لاکھ کلو میٹر ہے۔) ‏زمین میں پچاس سال گزارنے کے بعد وہ واپس آکر دیکھے تو اس کی عمر والے اکثر مر گئے ہوں گے اور باقی رہنے والے 75سال کے ہوگئے ہوں ‏گے۔ 

لیکن روشنی کی رفتار سے سفر کرتا ہی رہنے والا25عمر کا نوجوان ہی واپس آئے گا۔ آج کے جدید دنیا میں بسنے والے عالم خود بھی اس کوسمجھنا مشکل ‏رہنے کے باوجود یہی حقیقت ہے۔ 

جانبدارانہ عقیدے کو آئنسٹین نے 1905 میں انکشاف کیا۔ پڑھنا لکھنا نہ جا ننے والے محمد نبی نے چودہ سو سال پہلے ہی اس کوکہہ دیاہے تو اس ‏زمانے کے علم کے ذریعے اس کو کہہ نہیں سکتے تھے۔

اس حقیقت کواس زمانے کا کوئی شخص جان نہیں سکتا تھا۔ اس کو صرف اللہ ہی جانتا تھا۔ چنانچہ اس سے ثابت ہو تاہے کہ اللہ کی طرف ہی سے محمد نبی ‏نے اس خبر کو حاصل کیا ہے۔ 

ان آیتوں 22:47 اور 32:5 میں کہا گیا ہے کہ اللہ کا ایک دن تمہارے دنوں میں ہزارسالوں کے مقدا ر کا ہے۔ لیکن اس آیت 70:4 میں کہا ‏گیا ہے کہ پچاس ہزار سال کے برابر ہے۔ایسا کیوں؟ بعض لوگوں کو شک ہو سکتا ہے کہ اس میں اختلاف کیوں؟ 

اس میں شک نہیں کہ ایک ہزار اور پچاس ہزارایک سے ایک مختلف ہے۔ لیکن دونوں الگ الگ خبروں کی آیتیں ہیں۔اسکو اگر سمجھ گئے تو معلوم ‏ہوجائے گاکہ ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ 

ان دونوں آیتوں میں استعمال ہو نے والے لفظوں کو اگر غور کریں تو کوئی بھی سمجھ جائے گا کہ دونوں چیزیں الگ الگ ہیں۔

زمین پر آنے والے فرشتے آسمانی دنیا کی طرف جانے کی رفتار کے بارے میں یہ آیت 70:4کہتی ہے۔ نور سے پید ا کئے جانے والے فرشتے زمین ‏سے اللہ کی طرف اوپر جا نے کی رفتار پچاس ہزار سالوں کے برابر ایک دن کی رفتار کہا جا تا ہے۔ 

یعنی ایک دن میں جو وہ پہنچتے ہیں اس دوری کو اگر ہم پہنچنا ہو تو پچاس ہزار سال درکارہوں گے۔(یعنی 1,82,50,000دن)

ایک لمحے میں وہ پہنچنے کی دوری ہم پہنچنا ہو تو211دن لگے گی۔ ان کی رفتار اتنی تیزہوگی۔

فرشتوں کے سفر کی رفتار کو یہ آیت 70:4 کہتی ہے۔ 

اللہ کے احکام کو زمین تک پہنچا کر پھر واپس جانے کی رفتار کویہ آیت 32:5 کہتی ہے۔اللہ ہر لمحہ کروڑوں احکام بھیجتا رہتا ہے۔ 

دنیا میں جو بھی کام چلتاہے اس کے احکام کے مطابق ہی چلتا ہے۔ 

اس طرح نافذ کئے گئے احکام زمین تک پہنچ کر پھر اللہ کی طرف واپس پہنچنے کی رفتار کے بارے میں ہی یہ آیت کہتی ہے۔ 

آیت نمبر 22:47 بھی احکام کی رفتار ہی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ نبیوں کے دشمنوں نے کہا کہ اگر اللہ ہے تو اس کو نہ ماننے والے ہم لوگوں پر ‏عذاب اتارنے دو۔ اگر اس کا حکم میں بھیج دیا تو وہ ہزار سال کے برابرکے ایک دن کی رفتار سے پہنچ جائے گا۔اسی بات کو یہ آیت 22:47 کہتی ‏ہے۔ 

اللہ کا ایک حکم ایک دن میں پہنچنے کی دوری کو آدمی پہنچنے کے لئے ایک ہزار دن (یعنی 3,65,000 دن ) لگیں گے۔ 

اللہ کا حکم ایک لمحے میں پہنچنے کی دوری کو اگر ہم پہنچنا ہو تو چار دن سے زیادہ ہوگا۔ 

روشنی کی رفتار ہی انسان کے انکشاف کی رفتار میں بہت زیادہ تیزی کا ہے۔ اسی لئے نور سے پیدا کئے گئے فرشتوں کی رفتار احکام کی تیزی سے پچاس ‏گنا زیادہ ہے۔ 

ایک ہزار سال اور پچاس ہزار سال دونوں الگ الگ معاملوں کا حساب ہے، اس کو اگر سمجھ گئے تو کوئی الجھن پیدا نہیں ہوگی۔  

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account