452۔ گن کر کیوں بولا نہیں گیا؟
اللہ نے اس آیت 37:147میں یونس نبی کی قوم کی گنتی کے بارے میں کہتے ہوئے قطعیت سے ایک گنتی کہنے کے بجائے فرمایا ہے کہ ہم نے ایک لاکھ یا اس سے زیادہ لوگوں کی طرف بھیجا۔
قرآن میں نقص ڈھو نڈنے والے سوال کر تے ہیں کہ ایک انسان اس طرح انداز سے کہہ سکتا ہے، لیکن اللہ کو شک نہیں ہوناچاہئے کہ وہ لوگ کتنے تھے۔
یہ سوال بالکل بے معنی ہے۔ ایک رسول کو بھیجنا ایک لمحے میں ختم ہو نے والاکام نہیں ہے۔ ان کا کام کئی سالوں تک متواتر چلنے کا کام ہے۔ اس عرصے میں لوگوں کی گنتی بڑھتے ہی جائے گی۔
یونس نبی بھیجے جانے کے وقت میں ایک لاکھ لوگ رہتے وہ ان لوگوں کو تبلیغ کر نے کے زمانے میں ہر روز لوگوں کی گنتی بڑھ سکتی تھی۔ اس طرح بڑھنے والے لوگوں کو بھی وہی رسول تھے۔
کوئی شخص سات کروڑ لوگوں کامالک اگر منتخب ہو تا، وہ اپنے عہدے کے آخری زمانے میں ساڑھے سات کروڑ لوگوں کا مالک بن گیا ہوتا۔
اس طرح اگر غور کرو تو تم جان جاؤگے کہ یہ اصطلاح کتنی خوبصورت انداز کا اصطلاح ہے۔
اگر قرآن کہتا کہ ایک لاکھ لوگوں کو ہم نے نبی بنا کر بھیجاتو یونس نبی کے زمانے میں کیا کوئی بھی بچے کو جنم نہیں دیاکا سوال اٹھاکر اللہ کے اس قول کو جھوٹ کہہ دیا ہوتا۔ اسی لئے اللہ نے ایک مختلف اصطلاح استعمال کیاہے۔ یہ آیت ثابت کرتی ہے کہ اس کو اللہ ہی نے کہا ہے۔
452۔ گن کر کیوں بولا نہیں گیا؟
Typography
- Smaller Small Medium Big Bigger
- Default Meera Catamaran Pavana
- Reading Mode