476۔ انسان پر کس حد تک بھروسہ کر سکتے ہیں؟
اس آیت2:282 میں اللہ فرماتا ہے کہ کسی کو قرض دو تو اسے لکھ لیا کرو۔
لوگوں میں اکثریت دوسروں پر بے حد بھروسہ کر نے کی وجہ سے دھوکہ کھا تے ہیں۔ لیکن اسلام نے کسی پر سو فی صدبھروسہ کر نے کے لئے نہیں کہا۔
ظاہری اعمال کو دیکھ کر یا جاننے والے سے پوچھ کر ایک شخص کے بارے میں دل کے حد تک بھروسہ کر سکتے ہیں۔ لیکن لین دین کے معاملے میں اگر بھروسہ نہ ہوتو جس طرح چلنا چاہئے اس انداز سے سب لوگوں کے پاس بالکل احتیاط سے پیش آنا چاہئے۔
یہی اسلام کا طریقہ ہے۔
یعنی دل ہی میں بھروسہ رکھیں۔ کاروائی میں ہر کسی سے ایسا پیش آنا چاہئے کہ جیسا کہ ان پر بھروسہ نہیں ہے۔
قرض دو تو لکھ لیا کرو۔ قرآن بھی اسی بنیاد پر حکم دیتا ہے۔
کسی تحریری انداز میں یا کسی ضمانت کے بغیر چند اشخاص قرض مانگیں گے کہ کیا مجھ پر بھروسہ نہیں۔ اگر اس طرح کوئی پوچھیں تو ان کے دلوں کو ٹھیس پہنچائے بغیرکس طرح جواب دیا جائے، اس کو بھی یہ آیت ہمیں سکھلا تا ہے۔
تم پر بھروسہ نہ رہنے کی وجہ سے میں تم سے تحریر نہیں مانگتا۔ بلکہ اللہ نے اس کو فرض کیاہے، اسی لئے میں تحریر مانگ رہا ہوں، اس طرح دل کو ٹھیس پہنچائے بغیر لکھ کر لے لیں۔
اگر لکھ کر دینے کا موقع نہ ہو تو ضمانت کے طور پر کوئی چیز حاصل کر لیں، یہ بھی اسی بنیاد پر کہا گیا ہے۔
نبی کریمؐ نے ضمانت کے بارے میں کئی رہنمائی عطا کی ہے۔ایک شخص پر بھرپور بھروسہ ہو تو ضمانت کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
ایک یہودی کے پاس قرض لیتے وقت نبی کریم ؐ نے اپنی زرہ بکتر کو ضمانت رکھا تھا۔ نبی کریم ؐ نے یہ نہیں پوچھا تھا کہ کیا تم کو مجھ پر بھروسہ نہیں؟
نبی کریمؐ نے تعلیم دے چکے ہیں کہ اگر کوئی ایک چیز کو اپنا کہہ کر دعویٰ کر تا ہے تو اس کے لئے سند پیش کر نا چاہئے۔اس سے ہم جان سکتے ہیں کہ کسی پر بھروسہ کر کے دھوکہ نہ کھانے کے لئے گواہوں کو تیار کرلینا چاہئے۔
اسلام رہنمائی کر تا ہے کہ مختلف معاملوں کے لئے معاہدہ کر لیا کریں۔منہ کے بول پر بھروسہ کر تے ہوئے دھوکہ نہ کھاجائیں ، اسی لئے تحریری معاہدہ کر لیا کریں۔
اسلام کہتا ہے کہ اسی طرح کئی معاملوں کے لئے گواہوں کا انتظام کر لیا کرو۔اگر اسلام کی پائیداری یہ ہو تا کہ بھر پور بھروسہ رکھا جائے تو گواہوں کی ضرورت ہی نہیں۔
اسلام جو کہتا ہے کہ پوری طرح سے دریافت کرلیں، وہ اسی وجہ سے ہے۔
اسلام کی اس نصیحت کو اگر دنیا کے لوگ ٹھیک طریقے سے اپنائیں تو دغا بازوں کو کام نہیں ہوگا اور دھوکاکھانے کی نوبت نہیں آئے گی۔
اس کو نمازی سمجھ کر میں نے وہ دے دیا، یہ داڑھی رکھا ہے، اس بھروسہ پر میں نے دے دیا، یہ توحید والا ہے ، اس بھروسہ پرمیں نے دھوکہ کھاگیا، اس کو میں نے رشتہ دار سمجھ کر بھروسہ کیا تھا ، اس نے مجھے دھوکہ دے دیا، اس طرح کہنے والی بیوقوفوں کی جماعت بڑھتے جا نے کی وجہ یہی ہے کہ اسلام کی اس تعلیم کوانہوں نے جھٹلا دیا۔ کسی پر بھروسہ کر کے دھوکہ کھانا نہیں، اسمیں ہوشیاری سے رہنا ضروری ہے۔
476۔ انسان پر کس حد تک بھروسہ کر سکتے ہیں؟
Typography
- Smaller Small Medium Big Bigger
- Default Meera Catamaran Pavana
- Reading Mode