Sidebar

03
Thu, Jul
0 New Articles

 ‏480۔ لعنت کرنے کیا قنوت پڑھنا منع ہے؟

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

 ‏480۔ لعنت کرنے کیا قنوت پڑھنا منع ہے؟

‏یہ آیت 3:128نازل ہو نے کے لئے حدیث میں دو وجہ بتائی گئی ہیں۔ 

جنگ احد میں نبی کریم ؐ زخمی ہوئے۔ نبی کریم ؐ نے تکلیف برداشت نہ کرتے ہوئے کہا کہ نبی کے چہرے پر خون کا رنگ لگانے والے کیسے فتح پا سکتے ‏ہیں؟اسی وقت اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (دیکھئے : مسلم:3667)

یہ آیت نازل کئے جانے کی وجہ مسلم نے اس طرح اپنی کتاب میں درج کیا ہے۔ لیکن بخاری کہتے ہیں: 

نبی کریم ؐ نے فجر کی نماز میں آخری رکعت کے وقت اپنے سر کو اٹھا کر ، اللٰھم ربنا لک الحمد کہنے کے بعد دعا کی کہ یا اللہ! فلاں اور فلاں کو تیری رحمت ‏سے دورکردے!تو فوراًعظمت و جلال والے اللہ نے اس آیت (3:128) کو اتارا کہ اے محمد! تم کو اس میں کوئی اختیار نہیں۔ وہ انہیں معاف ‏کرے یا عذاب دے ، کیونکہ وہ ظالم ہیں۔ 

‏(دیکھئے بخاری: 7346)

یہ آیت نازل ہو نے کے بارے میں دو مختلف رائے ہیں۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ دونوں ہی موقعوں پر یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ یہ قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ اگر یہ آیت دونوں ہی موقعوں پر اتری ہو ‏تی تو قرآن مجید میں بھی یہ آیت دو جگہوں پر ہو نا چاہئے۔ کیونکہ کئی بار اترنے والی ایک ہی جملے والی آیتیں قرآن مجید میں کئی جگہوں پر حصہ پائی ‏ہیں۔لیکن یہ آیت ایک ہی جگہ پر درج ہوئی ہے۔ 

اس لئے اوپر والی وجہ میں کوئی ایک وجہ ہی ٹھیک ہوسکتا ہے۔

اصحاب رسول کو قتل کر نے والوں کے خلاف نبی کریم ؐ نے قنوط پڑھتے وقت یہ آیت اتری ہوگی۔ 

یا جنگ احد میں نبی کریم ؐ نے اپنے کو زخمی کر نے والوں پر جو لعنت بھیجی تھی اس وقت اترا ہوگا۔ 

جب جانچا گیا کہ کونسے موقع پر یہ آیت اتری ہے تو ہم یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے جب قنوط پڑھی تھی اس کو سرزنش کر تے ہوئے ‏نہیں اتری ہوگی۔ 

قرآن مجید کے حافظ70صحابیوں کو قتل کر نے والے اس جماعت کے خلاف ہی نبی کریم ؐ نے اللہ سے دعا کی تھی۔ اس کو سرزنش کر نے کی حد تک ‏اس میں کوئی سرکشی نہیں ہے۔ ظلم ڈھانے والے ایک جماعت کے خلاف دعا کرنا اللہ سے تسلیم کی گئی ایک عمل ہی ہے۔ اس کے لئے قرآن ہی ‏میں دلیلیں موجود ہیں۔

آیت نمبر 71:26 کہتی ہے کہ نوح نبی نے کہا کہ یا اللہ! زمین میں (تجھ کو) انکار کر نے والوں میں سے کسی ایک کو بھی نہ چھوڑ۔

اس آیت میں نوح نبی نے اللہ سے دعا کر تے ہیں کہ منکروں کو مٹادے۔ اس کو تسلیم کر تے ہوئے اللہ نے بھی سیلاب کے ذریعے ان لوگوں کو مٹا ‏دیا۔ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ ظالموں کے خلاف بد دعا کر نا نبیوں کے کارروائی کے خلاف نہیں ہے۔ 

نبی کریم ؐ نے فرمایا ہے کہ ظلم ڈھائے گئے انسان کی بد دعا سے ڈرا کرو۔ اللہ اور اس کے درمیان کوئی بھی پردہ نہیں ہے۔ 

‏(بخاری: 1496)

اس سے اچھی طرح معلوم ہو تا ہے کہ مظلوم لوگ ظلم ڈھانے والوں کے خلاف بد دعا کر نے میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ کمزوروں کو جو ایک ہی ‏دلجمعی ہے وہ صرف اللہ سے فریاد کرنا ہی ہے۔ 

قرآن کے حافظ بہت کم رہنے کے اس زمانے میں قرآن کے حافظ ستر سے زیادہ صحابیوں کو منافقوں نے قتل کر ڈالا، یہ واقعہ نبی کریم ؐ کو بہت ہی ‏متاثر کر دیا تھا۔اس موقع پر ہی ان منافقوں کے خلاف نبی کریم ؐ نے بد دعا کی تھی۔ یہ اللہ کی طرف سے مانا ہوا عمل ہی ہے۔ اس لئے ایسا کہنا کہ اس کو ‏سرزنش کر تے ہوئے اللہ نے آیت اتاری، قابل قبول نہیں ہے۔ 

اللہ فرماتا ہے کہ اختیار میں تمہارا کچھ حصہ نہیں۔ اللہ کے اختیار میں داخلہ ہو نے کا کوئی بھی علامت اس میں نہیں ہے۔ اللہ سے دعا کر نا اس کے ‏اختیار میں دخل دینا ہر گز نہیں ہوگا۔ اور بھی کہنا ہو تو اس طرح دعا کر نا اللہ کے اختیار کو ار اس کی قدرت کواور بھی استوار کرنا ہی ہے۔ اس لئے نبی ‏کریمؐ نے مشرکوں کے خلاف جب قنوط پڑھا تو اس وقت یہ آیت اترنے کا موقع ہی نہیں ہے۔ 

بلکہ جنگ احد کے موقع پر یہ آیت اترنے کے لئے مناسب وجوہات ہیں۔ جنگ احد میں نبی کریم ؐ نے زخمی ہو گئے۔ نبی کریمؐ نے کہا کہ نبی کے ‏چہرے کو زخمی کر نے والی یہ سماج کیسے کامیاب ہوگی؟اس وقت نبی کریمؐ نے اللہ سے دعا نہیں کی۔ ہم ایک نبی ہیں اور لوگوں کو نیک راہ کی طرف بلا ‏رہے ہیں، اس وجہ سے ہم زخمی کئے جا رہے ہیں، اس لئے وہ لوگ کامیاب نہیں ہو ں گے۔ یہ الفاظ ایسے تھے کہ وہ خود فیصلہ کر رہے ہیں۔ 

اللہ کے رسول اگر ایسا کہیں تویہ رائے پیدا ہوسکتا ہے کہ کسی کو کامیاب بنانے اور ناکام بنانے کا اختیار شاید ان کے پاس ہے۔ اسی لئے اس تکلیف کو ‏برداشت نہ کر تے ہو ئے نبی کریمؐ کے اس کہنے کو کہ مجھے خون کا رنگ لگانے والے کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں، اللہ نے سرزنش کرتا ہے ۔ 

تم پر حملہ کر نے والوں کو بھی اگر میں چاہوں تو کامیابی دے سکتا ہوں ، یا انہیں معاف بھی کر سکتا ہوں۔ یہ میرے مخصوص اختیار کا معاملہ ہے۔ ‏اس میں دخل دینے کا حق تمہیں نہیں پہنچتا۔اللہ کا فرمان اسی انداز کا تھا۔ 

مزید یہ کہ اس آیت سے پہلی آیتیں بھی جنگ احد کے بارے میں رہنے سے اس رائے کووہ مستحکم کر تا ہے۔ 

بخاری کی کہی ہوئی وجہ قابل قبول نہیں ہے۔مسلم کی وجہ ہی قابل قبول ہے۔ 

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account