Sidebar

27
Sat, Jul
4 New Articles

501۔ کیا اگلے لوگوں کی پیروی کر سکتے ہیں؟

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

501۔ کیا اگلے لوگوں کی پیروی کر سکتے ہیں؟

یہ آیت 9:100کہتی ہے کہ حجرت کر نے میں سبقت لے جا نے والے اور انہیں مدد کر نے میں سبقت لے جانے والوں کی پیروی کرو۔ اصحاب رسول کچھ بھی کہے اس کی ہم پیروی کر نا چاہئے، ایسے غلط اعتقاد والے اس آیت کو اپنے لئے دلیل پیش کر کے لوگوں کو گمراہ کر نے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس آیت کو وہ معنی نہیں ہے جو وہ لوگ کہہ رہے ہیں۔ اس کو جاننے سے پہلے اسلام کی بنیادی عقیدے کو جان لینا ضروری ہے۔

اسلام کے نام سے جو کچھ بھی کرنا ہو وہ اللہ کا فرمان ہو نا چاہئے۔ یا وحی کے ذریعے اس کے رسول ؐ کا کہنا ہونا چاہئے۔

اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے خلاف کوئی بھی کہے اس کو اور اسلام کو کوئی تعلق نہیں۔ اسی طرح اللہ اوراس کے رسول نے جو نہیں کہا اس کو اسلام کے نام سے کوئی بھی کہے اس کو اور اسلام کو کوئی تعلق نہیں۔

یہی اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔

اللہ اور اس کے رسول نے جو نہیں کہا اس کو اگر صحابیوں نے کہا بھی ہو یا جانے مانے بزرگوں نے بھی کہا ہو تو اس کو اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔

سیدھا راستہ دکھانے کا اختیار کسی کو نہیں ہے، وہ تو صرف میرے لئے ہے، یہی اللہ کی طرف سے دنیا کو ملا ہوا پہلا حکم ہے۔

پہلا انسان آدم ؑ کو اللہ نے براہ راست پیدا کیا ہے۔ اللہ کی قدرت کو آنکھوں کے سامنے دیکھے ہوئے ہیں۔انہیں فرشتوں سے زیادہ دانشمندی عطا کی گئی ہے۔

ایسی عظمت کو پائے ہوئے آدم ؑ اور ان کی بیوی حوا ؑ دونوں نے اللہ کے ایک حکم کو نہیں مانا۔ اس کی وجہ سے جہاں وہ تھے اس جنت سے باہر نکال دئے گئے۔

انہیں باہر کر تے وقت اللہ نے ان سے کہا تھا:

یہاں سے تم سب نکل جاؤ۔میرے پاس سے جب تمہیں ہدایت آئے توجو میری ہدایت کی پیروی کرے گا اس کونہ کوئی خوف ہو گا اور وہ نہ غمگین ہوں گے۔

قرآن مجید، 2:38

تم دونوں ایکساتھ یہاں سے اترو۔ تم میں سے بعض بعض لوگوں کے دشمن ہوں گے۔ میرے پاس سے تم کو ہدایت آئے گی۔ اس وقت میری ہدایت کی جو پیروی کر ے گا وہ گمراہ نہ ہوگااور نہ بدبخت ہوگا۔جو میری نصیحت کو اعراض کرے گا اس کو تنگی کا جینا ہوگا۔ اس کو ہم قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے۔

قرآن مجید، 20:123,124

انہیں عطا ہو نے والی عقل کے ذریعے سیدھی راہ کواگر انسان جان سکتا ہے تو اللہ نے اسطرح کہہ کر بھیجنے کی ضرورت نہیں۔

اللہ کہہ سکتا تھا کہ میں نے تمہیں بے شمار عقلمندی عطا کی ہے، اس عقل کے ذریعے سیدھی راہ تلاش کر واور اسی کے مطابق چلو۔ اس نے ایسا نہیں کہا، بلکہ اس طرح کہہ کر بھیجا ہے کہ میرے پاس سے تم کو سیدھی راہ آئے گی، اس راہ کو اگر تم پیروی کرو گے ہی تو کامیاب حاصل کر سکو گے۔

انسانوں ہی میں بہت بڑے عالم آدم نبی جو تھے وہ خودبھی سیدھی راہ دریافت نہیں کر سکتے۔ اللہ سے بتائی ہوئی ہدایت پر ہی انہیں چلنا چاہئے۔ اس کا مطلب ہے کہ کسی کا قول اور کارروائی کو ہم دین بنالینا نہیں چاہئے۔

آدم نبی خود اللہ کی طرف سے آنے والی صرف ہدایت کو ، وحی کوپیروی کر نا ہے تو یہ اصحاب رسول اور دوسرے کیا ان سے زیادہ بڑھ گئے؟

ان آیتوں میں 2:170، 3:103، 6:106، 6:114,115، 7:3، 10:15، 33:2،39:3، 39:58، 46:9، 49:16، 24:51,52، 5:3، 16:116، 42:21، 5:87، 6:140، 7:32، 9:29، 9:37، 10:59، 5:48,49 اس عقیدے کو اللہ نے اور بھی زیادہ واضح طور پر سمجھایا ہے۔

اب آئیں دیکھیں یہ 9:100کی آیت کیا کہتی ہے!

دین کے لئے مکہ چھوڑکر مدینہ کی ہجرت کر نے والوں کواور ہجرت کر کے مدینہ آنے والوں کی مدد کر نے والوں کو یہ آیت تعریف کر نے کے ساتھ انہیں پیروی کر نے والوں کو بھی یہ آیت تعریف کر تی ہے۔ یہ آیت یہ بھی کہتی ہے کہ اللہ نے ان سے راضی ہو ااور ان کے لئے جنت تیار ہے۔

اللہ خود حکم دیا ہے کہ اصحاب رسول کی پیروی کرو، اسی لئے وہ دعویٰ کر تے ہیں کہ اصحاب رسول کی پیروی ضروری ہے۔

اس آیت کی طرف ٹھیک سے غور نہ فرمانے کی وجہ سے ان کے غلط عقیدے کے لئے اس کو دلیل پیش کر تے ہیں۔ پیروی کر نے کا لفظ استعمال کر نے کے جگہ کے مطابق معنی دیتا ہے۔

ایک مخصوص آدمی کے نام کو استعمال کر کے اگر کہا جائے کہ اس کی پیروی کر تے ہوئے چلو تو اس کا معنی ہو گا کہ ہر طریقے سے اس کی پیروی کر نا چاہئے۔

ایک انسان کا رتبہ اور قابلیت کی طرف اشارہ کر کے کہا جائے کہ اس کی پیروی کرو تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی قابلیت کے سلسلے کے معاملے میں اس کی پیروی کرو۔

اگر کہا جائے کہ پولس کے افسر کی پیروی کرو یا پولس افسر موسیٰ کی پیروی کروتو اس کا مطلب ہو گا کہ پولس افسر کے لحاظ سے ان کی جو اختیارات ہیں اس معاملے میں پیروی کرو۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ تجارت، نکاح یا عبادت کے معاملوں میں پیروی کرو۔

اگر کہا جائے کہ سخاوت یا سخی ابراھیم کی پیروی کرو تواس کا مطلب ہو گا کہ ان کے دریا دلی کے معاملے کی پیروی کرو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ وہ جو کچھ کہے اس کو سنو یا وہ جو کچھ کرے اس کو تم بھی کرو۔

اس آیت میں کسی بھی انسان کی پیروی کر نے کے لئے نہیں کہا گیا ہے۔ بلکہ ہجرت کر نے میں سبقت لے جانے والے اور ان کی مدد کرنے میں سبقت لے جانے والے کی پیروی کر نے کے لئے ہی کہا گیا ہے۔

یعنی ہجرت کر نے میں جو سبقت لے گئے انہیں پیروی کرتے ہوئے بعض لوگ ہجرت کرنے میں دیری کردی، یہی اس کا مطلب ہے۔ مدد کر نے میں سبقت لے جانے والوں کی پیروی کا مطلب ہے کہ مدد کر نے میں انہوں نے ان کا راستہ اپنایا۔

اس میں ایک اور بات بھی غور کرنے کے قابل ہے۔

اللہ نے جنہیں مہاجر اور انصار کہا وہ اصحاب رسول ہی ہیں، اس کے باوجود انہیں پیروی کر نے کے لئے ہمارے لئے کوئی حکم نہیں ہے۔ اللہ نے مستقبل کا عمل ’’جو پیروی کر ے گا ‘‘کہنے کے بجائے ’’جو پیروی کیا تھا‘‘ کا ماضی کا عمل استعمال کیا ہے۔

’جو پیروی کر ے گا‘کہا جاتا تواس کا مطلب ہو تا کہ اب بھی انہیں پیروی کر سکتے ہیں۔ ’جو پیروی کیا تھا‘ کہا جانے کی وجہ سے یہ آیت نازل ہو نے سے پہلے جس نے پیروی کی تھی یہ اسی کی طرف اشارہ ہے۔ یہ بات بھی غور طلب ہے۔

اس لئے مہاجر اور انصار جیسے اصحاب رسول کی طرف اشارہ ہے اسی طرح مہاجر کی پیروی کرنا اور انصار کی پیروی کر نا دونوں اصحاب رسول ہی کی طرف اشارہ ہے۔

یہ آیت کہتی ہے کہ ابتدائی مہاجر ، ان کی پیروی کر تے ہوئے ہجرت کئے ہوئے مہاجر ، ابتدائی انصار اور ان کی پیروی کر تے ہوئے مدد پہنچانے والے انصار ، ان سب کو اللہ کی رضامندی ہے۔ یہ لوگ تمام اصحاب رسول ہی ہیں۔ جو اصحاب رسول نہیں ہیں ان کی طرف یہ اشارہ نہیں ہے۔

ہجرت کر نے میں اور ہجرت کر نے والوں کو اپنانے میں انہیں پیروی کرنے والے کا یہ جملہ عام طور سے پیروی کر نے کے لئے کہا نہیں جاتا۔

پہلے ہجرت کرنے والوں سے ہجرت کے وقت غلط کام واقع ہوا ہوگا۔ اس لئے کہ اس کی پیروی نہ ہوجائے،اللہ فرماتا ہے کہ اچھی طریقے سے پیروی کر نے والے۔

اور پھر صرف وحی کی پیروی کی جائے کہنے والی بے شمار دلیلوں کو بغیر اختلاف کے اس آیت کو سمجھنے کے لئے یہی ٹھیک طریقہ ہے۔

اس کو اگر اس طرح معنی دیں کہ مہاجر اور انصار وغیرہ کسی بھی چیز کو اگر دین کہیں یا کریں ، اس کو ایسے ہی ہم بھی پیروی کرنا ہے، تویہ نوبت آ جائے گی کہ صرف وحی کی پیروی کرنے کوکہنے والی آیتوں کو جھٹلادیا جائے ۔ یا ایسا ہوجائے گا کہ اصحاب رسول کو بھی وحی آتی تھی۔ دونوں ہی بات غلط ہیں۔

اس لئے یہ آیت یہ معنی نہیں دیتی کہ اصحاب رسول کی باتیں اور عمل دین کے لئے دلیل ہیں۔

دیگر رائے رکھنے والے اس آیت کو جو معنی دیتے ہیں وہ غلط ہے۔اسی طرح ترکیب پائی ہوئی ایک اور آیت کے ذریعے بھی ہم جان سکتے ہیں۔

جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی ان کی راہ پر ایمان لانے میں ان کی پیروی کی تو ان کے ساتھ ان کی اولاد کو بھی ہم جمع کر دیں گے۔ ان کے عمل میں کوئی چیز کم نہیں کریں گے۔ ہر آدمی اپنے اعمال میں گروی ہے۔

قرآن مجید، 52:21

اس 9:100آیت کو اختلاف رائے رکھنے والے جیسا سمجھے ہیں اس آیت کو بھی اگر سمجھیں تو اس کا مطلب ہو گا کہ ہر آدمی اپنے مومن والدین کی پیروی کر سکتے ہیں۔ یعنی اس کا یہ مطلب ہو گا کہ صرف صحابیوں کی پیروی کر نا ضروری نہیں ہے۔ اپنے والدین جس کو دین کہہ کر پیروی کرتے ہیں اسی کو ہم بھی پیروی کرنا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹھیک طریقے سے ایمان والے والدین کو اسی طرح ٹھیک طریقے سے ایمان لا کر اولاد بھی اگرپیروی کریں تو ان کی اجرت کو کچھ کمی کے بغیر ہم عطا کر یں گے۔

وہ لوگ خود مانتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ والدین کی تمام کارروائی کو ایسے ہی پیروی کریں۔

ایک ہی طریقے سے ترکیب پائی ہوئی دو الگ الگ آیتوں کو دو طریقے سے تشریح کی گئی ہے، اسی سے ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ ان کا دعویٰ کتنا غلط ہے۔

نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ تم میں بہتر لوگ میرے زمانے والے ہیں۔ پھراس کے بعد آنے والے ہیں۔ پھر ان کے بعد آنے والے ہیں۔آپ ہی نے پھرکہا کہ تمہارے بعد ایمانداری سے نہ چلنے والے، دھوکہ بازی کر نے والے،گواہی کے لئے بلائے بغیر گواہ دینے والے، نذریں ماننے کے بعد اس کوپورا نہیں کر نے والے ظاہرہوں گے۔ اور ان کے پاس ریاکاری دکھائی دے گی۔

بخاری: 2651، 3650، 6428، 6695

نبی کریم ؐ نے اپنے زمانے والوں کو اور اس کے بعد کے زمانے والوں کو بہترین امت کہنے کی وجہ سے وہ لوگ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اصحاب رسول کی ہم پیروی کر سکتے ہیں۔

یہ حدیث سند یافتہ حدیث ہونے میں کوئی شک نہیں۔لیکن اس میں اصحاب رسول کی پیروی کر نے کے لئے ایک بھی جملہ نہیں ہے۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کو نبی کریم ؐ نے اس کے آخر ہی میں وضاحت کردیا ہے۔

یعنی اس امت میں ایمانداری، صداقت،وعدہ نبھانا، ہر معاملہ میں زبردستی داخل ہوناوغیرہ اچھے اخلاق بہت زیادہ ہونگے۔ اس کے بعد کے زمانے میں وہ کم ہو جا ئے گا، یہی وہ تفصیل ہے۔

اصحاب رسول کی غورو فکر میں، فیصلوں میں، انجام میں، تفتیش میں کوئی غلطی نہیں ہو سکتی، اس وجہ سے اگر نبی کریم ؐانہیں بہتر امت کہا ہو تا تو انہیں پیروی کر سکتے ہیں۔ فرض کرو کہ یہ معنی اس کے اندر موجود ہے۔

ان کی ایمانداری اور راست بازی کی وجہ سے نبی کریم ؐ نے انہیں بہتر کہا ہے۔ ایمانداری اور راست بازی سے رہنے کی وجہ سے ان کے ذہن میں کبھی بھی غلطی پیدا ہی نہیں ہو گی ، کوئی نہیں کہہ سکتا۔

اور پھر ہم نے کئی دلائل پیش کر چکے ہیں کہ صرف وحی ہی کی ہمیں پیروی کرنا ہے۔ اس کے خلاف اگر ہم اس حدیث کو مانیں تو ہمیں یہ بھی ماننے کی آفت آجائے گی کہ اصحاب رسول کو بھی اللہ کی طرف سے وحی آئی ہے۔

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account