Sidebar

16
Thu, May
1 New Articles

 ‏150۔علمائے دین کے پا س کیا سوال کر سکتے ہیں؟ 

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

 ‏150۔علمائے دین کے پا س کیا سوال کر سکتے ہیں؟ 

‏اس آیت (5:101) میں کہا گیا ہے کہ وحی اترتے وقت اللہ کے رسول سے سوال نہ کریں۔ 

کئی علمائے دین کسی دلیل کے بغیر دینی فیصلہ سناتے آرہے ہیں۔ ان سے کوئی عام آدمی سوال نہیں اٹھا سکتا کہ اس کی سند کے لئے قرآنی آیت کونسی ‏ہے یاحدیث کونسی ہے ؟کیونکہ وہ لوگ اس آیت کو دکھا کرکہتے ہیں کہ علماء کے پاس سوال نہیں کرنا چاہئے۔ 

لیکن یہ آیت تو کہتی ہے کہ وحی اترتے وقت اللہ کے رسول سے سوال نہ کریں۔اس کے لئے یہ مقصد کہا گیا ہے کہ چند سوالات پوچھتے وقت اس ‏کے لئے اللہ جو جواب دے گاوہ ان سوال اٹھانے والوں کو کچھ متاثر نہ کردے۔ 

نبی کریم ؐ کے پاس چند لوگوں نے ایسا بھی سوال کیا ہے کہ میرا باپ کون ہے؟ (بخاری: 4621، 4622)

ایسے سوالات کئے جائیں تو جس کو اس نے باپ سمجھ رکھا تھا ، اس کے بجائے یہ حقیقت کھل جائے کہ کوئی دوسرا اس کا باپ ہے توبے ضرورت دل ‏آزاری کا سامنا کر نا پڑے گا۔ 

اسی لئے منع کیا گیا تھا کہ اللہ کے رسول سے چند باتوں کے متعلق سوال نہ کریں۔ 

نبی کریم ؐ سے بھی دینی مسئلے پوچھنے کے لئے منع نہیں کیا گیا۔ اللہ نے ظاہرکئے بغیر جوچھپا کر رکھا تھاان باتوں کے بارے میں ہی سوال نہ کر نے کو یہ ‏آیت کہتی ہے۔ 

اللہ نے جو باتیں چھپا کر رکھی ہیں اس کوعلمائے دین اللہ سے حاصل کر کے تمہیں آگاہ کرنے والے نہیں۔ ان سے دلیل مانگنے کواور اس آیت کوکوئی ‏تعلق نہیں۔ 

عام طور پر علماء سے سوال کر نے کو یہ آیت اکساتی ہے۔ دیکھئے آیت نمبر 16:43، 21:7۔

نبی کریم ؐ سے جو مختلف سوالات کئے گئے اس کو ان آیتوں میں دیکھئے: 2:189، 2:215، 2:217، 2:219، 2:220، 2:222، ‏‏5:4، 8:1، 17:85، 18:83، 20:105، 33:63، 51:12، 70:1۔ 

اور زیادہ معلومات کے لئے حاشیہ نمبر 31دیکھئے۔ 

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account