Sidebar

30
Mon, Jun
0 New Articles

‏288۔ آسمان ایک محفوظ چھت ہے

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

‏288۔ آسمان ایک محفوظ چھت ہے

‏یہ آیتیں 2:22، 21:32، 40:64، 52:5کہتی ہیں کہ آسمان محفوظ چھت ہے۔ 

اگرچھت یا سائبان کہنا ہو تو اوپر سے جو آفتیں آتی ہیں اور سخت دھوپ یا بارش یاشبنم برستی ہیں ان کو روک رکھنا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ ہمارے اوپرکچھ بھی نہیں ہے۔کوئی سوچ سکتا ہے ایسا آسمان کیسے چھت ہو سکتاہے؟

جدید تحقیقات کی بنیاد پر اگر رکھ کر دیکھیں تو قرآن مجید کے کہنے کے مطابق اس حیرت انگیز بات کو ہم جان لے سکتے ہیں کہ وہ آسمان زمین کو چھت ‏بنا ہوا ہے۔ 

‏( قرآن مجید میں آسمان دو معنوں سے استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے متعلق حاشیہ نمبر 507میں دیکھئے!)

چاند میں دن کے وقت کی گرمی 127 ڈگری سینٹی گریٹ ہے۔ چاند کے قریب کی زمین میں بھی تقریباً اسی انداز کی گرمی ہونی چاہئے تھی۔ لیکن ‏اوسط درجے میں 40ڈگری انداز سے ہی زمین کی گرمی ہو تی ہے۔ اس کی وجہ ہمارے اوپر رہنے والی ہوائی چھت ہی ہے۔ 

زمین سے 16 کلو میٹر اونچائی تک ہی ہوا کا پہلا درجہ ہے۔ یہ سورج سے آنے والی گرمی سے تین میں دو حصہ کم کرکے سورج کی گرمی پوری طرح ‏سے زمین کی طرف آنے سے روکتی ہے۔ 

‏اس درجہ میں نائٹروجن، آکسیجن اورکاربن ڈئی آکسیڈ زیادہ رہنے کی وجہ سے یہ چھت کی طرح کام کرتی ہے۔

زمین سے 16کلو میٹر سے 50 کلو میٹر تک کثافت کم والے جہاز اڑنے کے لئے مناسب ہوا موجود ہے۔ 

دوسرے درجے میں زمین سے 20 سے 35 کلو میٹر تک اوسون کی کثافت ہے۔ سورج سے سات رنگوں میں شعائیں نکلتی ہیں۔ اس میں سطحی ‏نیلی شعائیں بہت ہی زبردست جان لیوا ہوتی ہیں۔ جانداروں میں موجود ذروں کو یہ شعائیں فنا کر دیتی ہیں۔

پانی میں موجود کیڑوں کو مٹانے کے لئے اس سطحی نیلی شعاؤں کو استعمال کر نے کی باریکی فن کو آجکل استعمال کیا جا تا ہے۔ وہ شعائیں پانی میں موجود ‏تمام کیڑوں کو پوری طرح سے مٹانے کی طاقت رکھتی ہے۔ 

اتنی طاقتور سطحی نیلی شعائیں جانداروں کو چھوکر جاندار مٹ نہ جائیں، اس کو اس قسم کے اوسون کثافت سے روکا جاتا ہے۔ 

اس لحاظ سے آسمان چھت بنا ہوا ہے۔ 

زمین سے 50 کلو میٹر سے60کلو میٹر تک درمیانی درجہ ہے۔ وقفہ وقفہ سے آسمانی پتھریں اور دمدار ستارے فی گھنٹہ 43000 سے 57000 ‏کلو میٹررفتار سے زمین کی طرف آتے ہیں۔ 

اس میں چند پتھریں 96000سینٹی میٹررقبہ کے بھی ہیں۔اتنا بڑاآسمانی پتھر لگ بھگ 50000کلو میٹر رفتار سے زمین پر حملہ کرے توکتنا بڑا ‏نقصان ہو گا کہ ہم قیاس بھی نہیں کرسکتے۔لیکن اس نوبت تک پہنچنے سے پہلے تیزی سے آنے والے ان پتھروں کو یہ درمیانی درجہ جلا کرخاک ‏کردیتا ہے۔

بھول چوک کر بکھرکر گرنے والے آسمانی پتھروں کی رفتاردھیما کیا جاتا ہے۔ 

اس لحاظ سے بھی آسمان چھت کا کام دیتا ہے۔ 

زمین سے 80 کلو میٹر سے 1600کلو میٹر تک گرمی کے درجے ہیں۔ ہیلیم اور ہائیڈروجن جیسے ہوا یہاں زیادہ رہنے کی وجہ سے اس درجہ کو ‏حرارت پہنچائی جاتے رہتی ہے۔ زمین سے پہنچائی جانے والی آواز اور روشنی کی لہریں یہاں روکاجاتا ہے اور واپس کردیا جاتا ہے۔ 

اس لحاظ سے آواز اور روشنی کی لہر کوزمین سے باہر کئے بغیر روکنے والی چھت کی طرح یہ موجود ہے۔ 

آسمان میں ہر ایک حصہ میں ہر قسم کی روک تھام کر نے کے بعد ہی اللہ آسمان کو چھت کہا ہے۔ 

قرآن اللہ ہی کا کلام ہے ، اس کے لئے یہ آیتیں دلیل ہیں۔  

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account