289۔ کیا تقدیر پر بھروسہ کرنا باطل عقیدہ ہے؟
اس آیت 57:23 میں کہا گیا ہے کہ تقدیر کو کیوں ماناجائے اور اس سے ہمیں کیا فائدہ ہے۔
تقدیر پر بھروسہ کر نا اسلام کے اہم عقیدوں میں سے ایک ہے۔ دین اسلام میں ہر عقیدے کو عقلی طور پر واضح کر سکتے ہیں، اس کے باوجود صرف تقدیر کے بارے میں بحث نہیں کر نی چاہئے۔ اس کو نبی کریم ؐ نے فرمادیا۔
کیونکہ ایک نظرئے سے دیکھا گیا تو ایسا معلوم ہو تا ہے کہ تقدیر ہے۔ دوسرے نظریے سے دیکھا گیا تو معلوم ہو گا کہ تقدیر تمام کچھ بھی نہیں ہے۔
اگر تقدیر نامی کچھ ہوگا تو ایسے سوالات اٹھ سکتے ہیں کہ اچھے یا برے راستے میں چلنے کیلئے میں کیسے ذمہ دار ہوسکتا ہوں؟ میرے برے عمل کے لئے میں کیوں دوزخ میں ڈالا جاؤں؟
اگر سمجھو کہ تقدیر نہیں ہے تو ہم جو کام بھی کرتے ہیں اس کو ہم ہی فیصلہ کر تے ہیں۔ ہمارا فیصلہ تمام ہمارے ہی ہاتھ میں ہے تو ایسا ہوجا ئیگا کہ ہم جو کر نے والے ہیں اس کو اللہ نہیں جانتا۔
ایسا ہوجائے گا کہ ہر معاملہ ہمارے کئے جانے کے بعد ہی اللہ کو معلوم ہوتا ہے۔یہاں یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ میں جو کام کل کرنے والا ہوں اس کو نہ جاننے والا کیسے رب ہو سکتا ہے؟
جو کام ہم کر نے والے ہیں اس کو اللہ پہلے ہی سے جانتا ہے تو جو اللہ جان رکھا ہے وہ ہو کر ہی رہے گا۔ یہی بات سب کچھ تقدیر کے مطابق ہی چلے گا میں موجود ہے۔
یعنی کہ اللہ کو سب کچھ معلوم ہے تو اس کے اندر تقدیر کا عقیدہ بھی شامل ہے۔ کوئی کام ختم ہو نے کے بعد ہی اللہ کو معلوم ہے تو یہاں اللہ کی حیثیت کم ہوجا تی ہے۔
اگر تقدیر نا کہو بھی تو آفت!
اگر تقدیر ہے کہو بھی تو آفت!
اسی لئے اسلام کہتا ہے کہ تقدیر پر بھروسہ بھی کرو، اور اسی وقت تقدیر پر الزام تھوپے بنا اپنے اعمال کی اصلاح بھی کرلو۔اور یہ شکست بھی مان لو کہ اس کو سمجھنے کی صلاحیت اللہ نے ہم کو نہیں دی۔
عقلی طور پر ہزاروں عقیدوں کے اصولوں کو دینے والے اللہ نے ہمیں آزمانے کے لئے بھی اس حال کو پیدا کیا ہوگا۔
اسی وقت تقدیر کے بارے میں جو دوسرے مذاہب میں عقیدہ پایا جا تا ہے اس طرح اسلام میں پایا ہوا نہیں ہے۔
چند مذاہب میں کہا جاتا ہے کہ ہر معاملہ تقدیر ہی کے مطابق چلتا ہے۔ اس لئے محنت نہ کرو! بیمار ہو گئے تو علاج مت کرو!اس طرح اسلام نہیں کہتا۔
بلکہ اسلام راستہ دکھاتا ہے کہ جو ہوگیا صرف اسی معاملے پر تقدیرپر بار ڈالو۔
اسلام راہ دکھاتا ہے کہ جو بات نہیں ہوئی ان معاملوں میں اگر تقدیرکچھ ناہو تو جس طرح چلوگے اسی طرح چلو۔یعنی محنت کرنے کو کہتا ہے۔ مشقت اٹھانے کو کہتا ہے۔
چنانچہ اسلام کہنے کے مطابق اگر تقدیر پر بھروسہ کریں تو وہ انسان کی ترقی میں کوئی رکاوٹ پیدانہیں ہوسکتی۔
اسی وقت تقدیر پر بھروسہ کر نے سے نوع انسانی کو حاصل ہو نے والے مفاد کو اگر سوچ کر دیکھیں توکم از کم اس کے لئے تو تقدیر پر بھروسہ کر نااچھا ہو گا۔
ایک انسان اپنی پوری طاقت کو استعمال کر کے ایک کام میں مشغول ہو تا ہے۔ فرض کرو کہ وہ کام ناکام ہوگیا۔
تقدیر پر بھروسہ کر نے والااس طرح سوچ کر کہ ہم کتنا بھی کوشش کریں ، اس میں اللہ کی بھی رضامندی ہونی چاہئے تھا، وہ جلد ہی اپنی فطری حالت پر آجا ئے گا۔
تقدیر کو نہ ماننے والا اس کو کیسے سمجھے گا؟
اتنی محنت کر نے کے باوجودبھی کامیابی حاصل ہوئی نہیں ، اس طرح رو رو کر ہی وہ بیمار ہوجا ئے گا۔ اس حد تک نہ بھی گیا تو کم از کم وہ اپنی فطری حالت پر آنے کے لئے بہت دیر لگے گا۔
کیرلامیں خودکشی کر نے والوں کے بارے میں تحقیق کی گئی۔ اس میں مرد و عورت کی بنیاد پر، مذاہب کی بنیاد پر، ذات پات کی بنیاد پر، علم والے اور لاعلم کی بنیاد پرخود کشی کر نے والوں کا ایک فہرست تیار کیا گیا۔ اس فہرست میں صرف مسلمان ہی بہت کم نظر آئے۔
اس کی وجہ کو انہوں نے جب تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ کوئی بھی تکلیف پہنچے تو مسلمانوں نے یہ اللہ کی مرضی کہہ کر نظر انداز کر دیا کرتے تھے، اسلئے وہ خودکشی کی طرف اکسائے نہیں جاتے تھے۔
اس آیت 57:23 میں اللہ کہتا ہے کہ تقدیر کو ماننے سے دو فائدے ہو تے ہیں۔
جب ہمیں دولت، سہولت اور مواقع اللہ کی طرف سے بکثرت عطا کی جاتی ہے تو ہم میں غروری اور تکبر بس جاتی ہے۔
تقدیر کو ماننے کے ذریعے اس دلی مرض سے بچ سکتے ہیں۔
یہ دولت ہمیں تقدیر سے اللہ ہی کی طرف سے ملی ہوئی ہے، سوائے اس کے ہماری طرف سے نہیں، اس طرح سوچنے سے غروری فوراً غائب ہو جاتی ہے۔
اسی طرح ہمیں جب زبردست تکلیف پہنچتی ہے تو ہم نڈھال ہوکر گر پڑتے ہیں۔ کئی دن اور کئی مہینے تک کسی میں دلچسپی لئے بغیر بے زارگی کے عالم میں پڑے رہتے ہیں۔
تقدیر پر بھروسہ اس دلی مرض کو بھی دور کر دیتی ہے۔
ہم سے کیا ہوسکتا ہے؟ اللہ کی مرضی وہی ہے، اس طرح سوچنے سے بہت جلد ہی فطری حالت کو پہنچ سکتے ہیں۔
اس آیت میں اللہ کہتا ہے کہ تقدیر پر بھروسہ رکھنے سے یہ دو فائدے حاصل ہو تے ہیں۔
جو معاملہ ختم ہوگیا اسی میں ہمیں تقدیر یاد آنا چاہئے۔ نہ ہونے والے معاملے میں تقدیر کیا ہے ، ہمیں معلوم نہ ہونے کی وجہ سے ہم اس طرح کارروائی کر نا چاہئے کہ تقدیر کچھ نہیں ہے۔ اس کو اس آیت سے ہم جان سکتے ہیں۔
آج کی نئی انکشافات بھی تقدیر کے بارے میں اختلافی کیفیت ہی کو پیش کر تی ہیں۔
انسان کے اکثر اعمال کواس کے پاس جو خلیے اور جین ہیں وہی وجہ ہیں، اس کو اب انکشاف کیا گیا ہے۔ اس خلیہ کی وجہ ہی سے انسانوں کا چال و چلن اور اچھی صفات ناموافقت نظر آتے ہیں۔
یعنی کہا جا تا ہے کہ کسی کے پاس چوری کی عادت ہو تو اسی کے لائق اس کے خلیہ بھی پائے جائیں گے۔
اس کے برے اعمال کو اس کے خلیہ ہی وجہ ہو توکہنا چاہئے تھا کہ اس کے گناہوں کے لئے اس کو سزا دیناکیسا انصاف ہے؟
لیکن اس طرح کہنے کے بجائے چور کو سزا دینے کو انصاف گردانا جاتا ہے۔
یعنی تقدیر کے معاملے میںیہ لوگ اب تک جو سوال کر تے آرہے تھے ، اسی میں وہ پھنس گئے۔ اس سے ہمیں یہ ثابت ہو جا تا ہے کہ تقدیر کو انسانی عقل کے ذریعے معلوم نہیں کر سکتے اور تقدیرنامی ایک چیز ضرور ہے۔
289۔ کیا تقدیر پر بھروسہ کرنا باطل عقیدہ ہے؟
Typography
- Smaller Small Medium Big Bigger
- Default Meera Catamaran Pavana
- Reading Mode