Sidebar

25
Thu, Apr
17 New Articles

‏338۔ تخت پر ڈالا ہوادھڑ

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

‏338۔ تخت پر ڈالا ہوادھڑ

‏اکثر مترجم اس آیت 38:34کو اس طرح ترجمہ کیا ہے:

بے شک ہم نے سلیمان کو آزمایا۔ اور ان کے تخت پر ایک دھڑ کو پھینکا۔ پھر وہ (ہماری طرف) رجوع کیا۔ 

لیکن ہم اس کو اس طرح ترجمہ کیا ہے:

سلیمان کو ہم نے آزمایا۔ ان کے تخت پر (انہیں) ایک لاش سا ڈالا۔ پھر وہ سدھر گئے۔ پھر کہا کہ’’ اے میرے رب! مجھے معاف فرمادے۔ ‏میرے بعد کسی کو نہ ملے ایسی ایک حکومت مجھے عطا کر، تو ہی بڑا فیاض ہے۔ 

یہ آیت اور اس کے بعد کی آیت کہتی ہے کہ سلیمان نبی نے ایک غلطی کی تھی اور انہوں نے اس غلطی کو سدھار لی۔ 

سارے مفسر اسکے بارے میں جھوٹ موٹ قیاس کر تے ہوئے کہانیاں جوڑی ہیں۔ 

اللہ کہتا ہے کہ سلیمان کو آزمایا۔ اس کی تفسیر کرنے والے کہتے ہیں کہ سلیمان نبی ایک بڑی گناہ کے مرتکب ہو گئے، اسی کے لئے اللہ نے انہیں ‏آزمایا۔ 

انہوں نے کیا گناہ کئے؟

بعض لوگ کہتے ہیں وہ شرک کر دئے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ حیض کے وقت وہ بیوی سے مجامعت کر دئے۔ 

بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ تین دن تک فیصلہ کئے بغیر غائب ہوگئے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایک مقدمہ میں اپنی بیوی کے رشتہ داروں کی طرفداری میں فیصلہ کر دئے۔ 

اسی طرح مختلف قیاس آرائیوں سے لکھ رکھا ہے۔

اس کے لئے کیا کوئی دلیل پیش کر تے ہیں؟نہیں!اکرمہ نے کہا، مجاہد نے کہا، اِس نے کہا، اُس نے کہا ، یہی ان کی دلیل ہے۔ اللہ کے رسول نے کہا، ‏ایسی کوئی اطلاع کسی نے نہیں دی۔ 

ان کے تخت پر ایک دھڑ پھینکا ، اس کی تفسیر میں جادوگرانہ کہانیاں لکھ چھوڑے ہیں۔ 

وہ کہتے ہیں کہ دھڑ جو کہا گیا ہے وہ شیطان ہے۔اوراس کی تفصیل یہ ہے کہ سلیمان غلطی کر نے کی وجہ سے ان کی تخت پر اللہ نے شیطان کو بٹھا دیا۔ 

اس کو اور زیادہ وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ سلیمان ؑ ایک انگوٹھی پہنے ہوئے تھے۔ اس انگوٹھی کی وجہ ہی سے وہ سلطنت میں رہ سکے۔ ایک ‏دن انگوٹھی نکا لا اور اپنی بیوی کے پاس دے کر نہانے کے لئے گئے۔ اس کو سکرنامی شیطان نے جانتے ہوئے سلیمان نبی کی شکل میں ان کی بیوی کے ‏پاس آکر انگوٹھی مانگا۔ بیوی نے اس کو انگوٹھی دیدی۔ تو فوراً سلطنت شیطان کی ہاتھوں میںآگیا۔شیطان نے چالیس دن تک حکومت کیا۔اس کے ‏بعد ہی سلیمان نبی کو اللہ نے حکومت بخشی۔ کہانی اس طرح چلتی ہے۔ 

ہم نے جہاں دھڑ ترجمہ کیا ہے اس جگہ پر جسد استعمال ہواہے۔ جسد کا مطلب ہے جسم۔ دھڑ اس کا مطلب نہیں ہے۔ دھڑکا مطلب ہے بغیر سر کا ‏جسم۔ 

نس، گوشت اور ہڈی وغیرہ مل کر ہی جسدہوتا ہے۔ یہ تمام چیزیں شیطان کو نہیں ہے۔وہ لوگ یہ معمولی حقیقت کو بھی نہ جان سکے کہ شیطان کے ‏لئے اس لفظ کو استعمال نہیں کیا جاتا۔

کیاشیطان ایک نبی کی شکل دھار سکتا ہے؟ سلیمان نبی کی شکل میں شیطان حکومت کرے تو کیا لوگ اتباع کر یں گے؟ کیا اس کے کہنے کو لوگ دین ‏مانیں گے؟ نبی زندہ رہتے وقت ہی لوگ اس طرح گمراہ ہو جانے کوکیا اللہ چھوڑ دیا ہوگا؟

کیا حکومت ایک انگوٹھی میں مضمر ہو سکتی ہے؟ ان سب چیزوں پر مفسرین نے غور نہیں کیا۔ 

اس طرح کی نادانی وضاحت ہی تفسیروں میں درج ہے۔

اگر یہ قیاسی کہانیاں ہوں توحقیقی واقعہ ہی کیا ہے؟ 

اس کے پیچھے کیا ایک ہی واقعہ ہونا ضروری ہے؟ کسی واقعہ کے بغیر اس آیت کو اگر ٹھیک سے تحقیق کر ے تو اس آیت کو اسی آیت کے ذریعے ‏ٹھیک طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔ 

سلیمان کو ہم نے آزمایا ، اس کو سمجھنے کے لئے کسی کہانی کی ضرورت نہیں۔ اللہ تو دولت دے کر بھی آزماتا ہے، اس کو چھین کر بھی آزماتا ہے، اور ‏صحت دے کر بھی آزماتا ہے۔ 

سلیمان نبی کو اللہ نے کس چیز سے آزمایا ہے، اس کو اگر سمجھ گئے تو بس واضح ہو جائے گا۔ 

ان کی تخت میں ایک دھڑ ڈالاکا مطلب کیا ہے؟ اس کو دیکھنے کے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا اس کا معنی برابر ہے؟ دھڑ کا ترجمہ بالکل غلط ہے۔ ‏جسم کا معنی ہی ٹھیک ترجمہ ہے۔ 

اس آیت کو اس طرح بھی معنی کر سکتے ہیں کہ ان کی تخت میں دھڑ دالا۔ 

ان کی تخت میں ایک لاش ڈالنے سے غلطی کا احساس دلا نہیں سکتے۔ ایک کے تخت میں اگر ایک لاش ڈالا گیا تو وہ سمجھیں گے نہیں کہ یہ ہماری ‏غلطی کودکھانے کے لئے ڈالاگیا ہے۔ 

اس طرح بھی ترجمہ کیا جا سکتا ہے کہ(انہیں) ان کی تخت میں جسم ساڈالا۔

یہ جملہ ایسا ہے کہ دونوں کو اس میں جگہ ہے۔ 

اس جگہ پر دوسری قسم کے ترجمہ کو اگر سمجھ جائیں تو اس قیاسی کہانیوں کے ذریعے پیدا ہو نے والی الجھنوں سے بچ سکتے ہیں۔پھر اس آیت کو آسانی ‏سے سمجھ سکتے ہیں۔ 

فرض کرو کہ ایک شخص بہت ہی سخت بیماری میں مبتلا ہے۔ بستر مرگ پر پڑا ہوا ہے، حرکات و سکنات بھی نہیں ہے۔ اس کے متعلق کہتے وقت ‏عرب اور دیگر زبان والوں میں بھی یہی کہنے کی عادت ہے کہ صرف اس کا جسم ہی پڑا ہوا ہے۔ جان رہ کر بھی بے جان کی طرح رہنے کی وجہ سے ‏اس کو زندہ کہنے کے بجائے کہا جاتا ہے کہ صرف جسم پڑا ہوا ہے۔ 

تخت پر بیٹھ کر حکومت چلانے والے سلیمان ؑ کو تخت پر صرف جسم سا ڈالا۔ 

اس طرح معانی دے کر دیکھو! اس سے پہلے کہا گیا تھا کہ سلیمان نبی کو ہم نے آزمایا۔ وہ آزمائش کیا تھا اس کو ہم اس آیت سے سمجھ سکتے ہیں۔وہ ‏سخت بیماری کی وجہ سے صرف جسم بن کر رہ گئے۔جب تخت پر صرف جسم پڑا ہو تو وہ جس طرح کسی حرکت کے بغیر پڑارہے گا اس حالت کو وہ پہنچ ‏گئے تھے۔ اس کا مطلب ہوگا کہ وہ بے جان سلیمان کی طرح ہوگئے۔ 

ہم نے سلیمان کو آزمایا۔ (اس آزمائش کی وجہ سے ان کے جسم کی حرکت متاثر ہوگیاتھا)ان کے بے حرکت جسم کو تخت پر ڈالا۔

دیکھو یہ کتنا واضح انداز اور بغیر الجھن کے سمجھ میں آتاہے۔

پھر اس نے ہماری طرف رجوع کیا، اسکا مطلب کیا ہے؟

‏’’ہماری طرف‘‘ کا لفظ اصل متن میں نہیں ہے۔ اَنَابَ کا لفظ پرانی حالت کو پھرنے کے معنی سے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہماری طرف کا لفظ بے ‏ضرورت ہے۔ پھر وہ پرانی حالت کی طرف لوٹے ، یہی مطلب ٹھیک ہے۔ 

اب دیکھو اس آیت کا پورا معانی۔ 

ہم نے سلیمان کو آزمایا۔ ان کے جسم کو تخت پر ڈالا۔پھر وہ اپنی پرانی حالت کو لوٹے۔ 

اس کو سمجھنے کے لئے کیا ایسی کہانیوں کی ضرورت ہے؟ قرآن مجید کوسمجھنا آسان ہے، اس کو جھوٹاثابت کر نے کے لئے کیا یہ تفصیلات ضروری ‏ہیں؟  

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account