Sidebar

03
Thu, Jul
0 New Articles

‏340۔ کیا چالیس عمر سے پہلے قاعدہ قانون نہیں تھا؟

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

‏340۔ کیا چالیس عمر سے پہلے قاعدہ قانون نہیں تھا؟

‏انسان چالیس سال میں ہی شباب کو پہنچتا ہے۔ اس وقت تک انسان کو کوئی قانون نہیں ہے۔اس آیت 46:15 کو اس طرح معنی دے کر بعض ‏جاہل لوگ لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ 

اس آیت کوبنیاد بنا کر کہتے ہیں کہ چالیس عمر تک کسی بھی طرح جی سکتے ہیں اور چالیس عمر کے بعد ہی نیکو کار بن کر جینا کافی ہے۔ اس طرح وہ بھی ‏گمراہ ہو کر دوسروں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں۔ یہ بھی بکواس کر رہے ہیں کہ چالیس عمر میں ہی انسان جوان ہو تا ہے۔

اس آیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ چالیس عمر تک آدمی پر کوئی فرض نہیں اور چالیس عمر تک انسان کسی بھی طرح جی سکتا ہے۔ 

اس آیت میں کہا نہیں گیا کہ جوانی کو پہنچنا چالیس عمر ہی میں ہے۔ بلکہ اس کے خلاف ہی یہ کہتا ہے۔ اس آیت میں یہی کہا گیا ہے کہ ’’انسان جوانی کو ‏پہنچ کرچالیسویں عمر کو جب پہنچتا ہے تو۔‘‘

جوانی کو پہنچنا جب چالیس سال ہے تو اس طرح کہہ نہیں سکتے۔ اس میں سے کسی ایک کو کہنا کافی ہے۔اس آیت سے ہم جان سکتے ہیں کہ جوانی کو ‏پہنچناالگ ہے اور چالیس عمر کو پہنچنا الگ ہے۔

‏’’چالیس عمر کو جب پہنچتے ہیں تو‘‘ اس اصطلاح کو یہاں کیوں درج کیا گیا ہے؟ اس کو اسی آیت میں جواب دیا گیا ہے؟

عام طور پر انسان جب جوانی کو پہنچتا ہے تو وہ والدین کی عظمت کو پہچاننے والا نہیں ہوتا۔ ماں اس کو تکلیف کے ساتھ پیٹ میں رکھنے اور جنم دینے کو وہ ‏بھول جاتا ہے۔ 

جب شادی ہو تی ہے تو والدین اس کو غیر ضروری لگتے ہیں۔ جسمانی جذبات کو ترجیح دے کر والدین کو وہ ٹھکرا دیتا ہے۔ اس کو ایک بچہ یا کئی بچے پید ‏اہوتے ہیں ۔ جب بھی وہ والدین کی قدر کو پہچاننے سے معذور ہو تا ہے۔ 

اس کے ہی بچے جب جوان ہو کر اسی کے مخالف بات کرتے ہیں تواس وقت اس کو احساس ہو تا ہے کہ والدین کی قدر کرنا چاہئے۔ ہم جس طرح ‏اپنے والد سے برتاؤ کئے تھے اسی طرح اس کے بچے جب اس سے برتاؤ کر نے شروع کر تے ہیں تو وہ پریشان ہو کر زمانہ دراز کے بعد والدین کی قدر ‏کو پہچانتے ہے۔ 

اس حال کو انسان کم از کم چالیس سال کی عمر میں پہنچتا ہے۔ اگر وہ بیس سال کی عمر میں شادی کیا ہوتو اس کی چالیسویں عمر میں بیس سال کے بچے کا ‏باپ ہوتا ہے۔ پچیس سال کی عمر میں دیر سے اگر شادی کیا ہو تو اس کی چالیسوں عمر میں اس کو ایک پندرہ سالہ بیٹا ہو گا۔ 

اپنا ہی بیٹا جب اس کو بے پرواہ کر دیتا ہے تو اسی وقت اس کو والدین کی قدر معلوم ہوتی ہے۔ اس کو اتنا زمانہ لگتاہے۔

‏* والدین کو نیکی کر نے کا احکام

‏* حمل میں رہتے وقت ماں کی تکلیف

‏* جنم دیتے وقت اس کی مشکل حالات

ان سب کو بیان کر نے کے بعد ’’چالیس عمر کو پہنچتے وقت ‘‘ کہا گیا ہے۔ ہر عقلمند اس کو جانتا ہے۔ 

یہ آیت کہتی ہے کہ چالیسویں عمر میں آدمی دعا کر تا ہے کہ ’’میرے بچوں کو میرے مطابق بنادے‘‘۔یہ اور بھی زور دیتا ہے کہ بچے کو جنم دے کر ‏جوانی کی عمر کو پہنچنے کے بعد ہی انسان اپنے والدین کو خیال کر تا ہے ۔ 

یہ کہہ کر وہ اصلاح پاتا ہے کہ ’’میں نے جس طرح میرے والدین کی قدر نہیں کی اسی طرح میرے بچوں کو میری قدر نہ کرنے والے نہ بنادے۔ ‏میں ایک اچھا مسلمان بن کر چلوں گا۔‘‘

اس آیت کو شروع سے آخر تک غور سے پڑھو تو اس میں کہا گیا ہے کہ چالیس سال کی عمر کوپہنچنے کے بعد ہی والدین کی عظمت کو انسان پہچانتا ‏ہے۔اس کے برعکس چالیس سال کی عمر تک دھوم مچانے کے لئے کوئی اجازت اس آیت میں نہیں دی گئی ہے۔ 

انسان میں جسم کی تناؤ رہنے تک ہی اس کو راست باز بنانے کے لئے ایک اخلاقی قانون ضرورت پڑتا ہے۔ جسم ڈھل جانے کے بعد کئی گناہوں میں ‏مبتلا ہو نے سے اس کے جسم میں خود طاقت کھو جاتی ہے۔ 

ذرا سوچو اگر دنیا میں رہنے والے تمام اس کی پیروی کرنے لگیں کہ چالیس سال کی عمر تک جو کچھ چاہے کریں تو کیا حال ہوگا؟ وہ سمجھ جائیں گے کہ یہ ‏کتنی خطرناک چیز ہے۔ ‏

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account