Sidebar

30
Tue, Apr
29 New Articles

 ‏454۔ بدکار بیوی سے الگ ہونا

உருது விளக்கங்கள்
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Meera Catamaran Pavana

 ‏454۔ بدکار بیوی سے الگ ہونا

‏کسی پر زناکاری کا جرم تھوپنے والے اس کے لئے چار گواہوں کو لانا ضروری ہے۔ اگرایسا لا نہ لاسکے تو الزام لگا نے والے پر اسّی کوڑے برسانا ‏چاہئے۔ یہی اسلام کی جرمیاتی قانون ہے۔لیکن بیوی پرشوہر اس طرح کاالزام لگاتے وقت اپنے الزام کو ثابت کر نے لئے اگر چار گواہ میسر نہ ہوں تو ‏کیا کرنا چاہئے، اس کو یہ 24:6-9آیتیں کہتی ہیں۔ 

بیوی پر بدکاری کا الزام لگانے والے شوہر کو اپنے سوا کوئی دوسرا گواہ نہ ہو تو یہ چار بار کہہ کر کہ جو کچھ میں کہتا ہوں بالکل سچ ہے، اللہ پر قسم کھانا ‏چاہئے۔ اور پانچویں بار یہ کہے کہ اگر میرا کہنا جھوٹ ہو گا تو اللہ کی لعنت مجھ پر برسے۔ 

اس کے بعد اس کی بیوی بھی چار باراللہ پر قسم کھا کر اسے انکار کر نا چاہئے۔ پانچویں بار وہ کہے کہ اگر میرا کہنا جھوٹ ہو گا تو مجھ پر اللہ کی لعنت ‏اترے۔ یہی تفصیل ان آیتوں میں کہا گیا ہے۔

اس طرح دونوں کہنے کے بعد دونوں کے درمیان جو نکاح کا بندھن تھا وہ خودبخودٹوٹ جائے گا۔ اس کے بعد وہ دونوں مل کر رہنے کی اجازت ‏نہیں۔ مزید یہ کہ شوہر اگر انکار کر ے کہ بیوی کو پیدا ہو نے والا بچہ میرا نہیں ہے تووہ بچہ ماں کے حوالے کر دیا جائے گا۔ وہ اس کا بچہ نہیں کہلائے ‏گا۔ ماں کی جائداد کو وہ بچہ وارث ہو گا۔ باپ کی جائدا کو وہ وارث نہیں بنے گا۔ 

اس کے لئے یہ دلیل ہے:

نبی کریمؐ کے پاس ایک شخص آکر کہنے لگا کہ اے اللہ کے رسول! اپنی بیوی کے ساتھ ایک غیر مرد کو دیکھ کر کیا وہ اس کو قتل کر سکتا ہے؟(اس ‏طرح اگر قتل کر دے تو انتقاماً )کیا تم اس کو قتل کر سکتے ہو؟ اگر نہیں تو وہ دوسراکیا کر ے؟ اس وقت اللہ نے ا ن شوہر بیوی کے سلسلہ میں ’’لعان‘‘ ‏کا قانون اتارا۔ نبی کریم ؐ نے اس شخص سے کہا کہ تمہا رے اور تمہاری بیوی کے معاملے میں فیصلہ کر دیا گیا ہے۔اس کے بعد ان دونوں میاں بیوی ‏نے ’’لعان‘‘ کیا۔ اس وقت میں اللہ کے رسول ؐ کے ساتھ تھا۔ وہ شخص اپنی بیوی سے جدا ہو گیا۔(اس دن سے) وہی واقعہ ’’لعان‘‘ کر نے والے ‏میاں بیوی کو جدا کر نے کے لئے ایک نمونہ بن گیا۔ وہ عورت حاملہ تھی۔ اس حمل کو ماننے سے شوہر نے انکار کر دیا۔ اس عورت کو پیدا ہو نے والا ‏لڑکا اسی کی نسبت سے اس عورت کا بیٹا کہلانے لگا۔ اس کے بعد وہ اس عورت سے اور یہ اس بیٹے سے اللہ نے جس طرح انتظام کیا تھا اسی کے مطابق ‏حصہ پانے کا وراثت کا قانون عمل میں آگیا۔ 

بخاری: 4746، 4748

سعیدبن زبیر ؒ نے فرمایا : 

میں نے ابن عمرؓ سے پوچھا کہ ایک شخص اپنی بیوی پر بدکاری کا الزام لگائے تو اس کا قانون کیاہے؟انہوں نے کہا کہ بنو عجلان قبیلے کے زوجین دونوں ‏کو (اس طرح کی ایک حالت میں)نبی کریم ؐ نے الگ کر رکھا۔ پھر کہنے لگے کہ اللہ اچھی طرح سے جانتا ہے کہ تم دونوں میں سے ایک جھوٹاہے۔ اس ‏لئے تم میں سے کون ہے جو توبہ کر کے(اللہ کی طرف )لوٹتا ہے؟ فوراً وہ دونوں ہی انکار کیا۔ نبی کریمؐ نے پھر کہنے لگے کہ اللہ اچھی طرح سے جانتا ‏ہے کہ تم دونوں میں سے ایک جھوٹاہے۔ اس لئے تم میں سے کون ہے جو توبہ کر کے(اللہ کی طرف )لوٹتا ہے؟تب بھی ان دونوں نے انکار کر دیا۔ ‏پھر تیسرے بار بھی نبی کریمؐ نے پھر کہنے لگے کہ اللہ اچھی طرح سے جانتا ہے کہ تم دونوں میں سے ایک جھوٹاہے۔ اس لئے تم میں سے کون ہے جو ‏توبہ کر کے(اللہ کی طرف )لوٹتا ہے؟تب بھی ان دونوں نے انکار کر دیا۔اسلئے نبی کریم ؐ ان دونوں کوجدا کردیا۔ 

اس کے راویوں میں سے ایک ایوب ؒ نے کہا:

امر بن دینارؒ نے مجھ سے کہاکہ اس حدیث میں سعید بن زبیر ؒ نے جو بات کہی تھی ، میں سمجھتا ہوں کہ اس نے نہیں کہا۔پھر انہوں نے کہا کہ اس ‏شخص نے پوچھاتھا ، میں نے جو مہر میں دیا تھا اس چیز کاکیا ہو گا؟ تو ان سے کہا گیا کہ (تم اپنی بیوی پر جو تہمت لگائے تھے ، اس میں ) تم اگر سچے ہو تو ‏پہلے ہی سے تم ازدواجی زندگی بسر کر چکے ہو ۔ (اس کے لئے وہ مہر برابر ہوجا ئے گا۔)اگرتم جھوٹ بولے ہو تو (بیوی سے لطف اندوز ہو تے ہوئے ‏الزام بھی لگا نے کی وجہ سے) وہ دولت تم سے چھوٹ کر بہت دور چلی گئی۔ 

بخاری: 5311

شوہر اس کو ظاہر کئے بغیر اس سے الگ ہونا چاہے تو طلاق دے کر الگ ہوسکتا ہے۔ 

یا اگر وہ معاف کر کے قبول کرنے کا فیصلہ کرلیا تو اس کے لئے بھی اس کو حق دیا گیا ہے۔ 

You have no rights to post comments. Register and post your comments.

Don't have an account yet? Register Now!

Sign in to your account