462۔ کیا کئی سالوں تک سو سکتے ہیں؟
یہ آیتیں 18:11 سے 18:18 تک ایک عجیب کیفیت سناتی ہے۔
نبی کریم ؐ کے زمانے سے پہلے بعض نوجوان توحید کے عقیدے پر ثابت قدم رہے تھے۔ اس عقیدے کے منکر ان کی قوم نے ان نوجوانوں کو مختلف انداز کی تکلیفیں دے رہے تھے۔ وہ اپنی قوم سے ڈر کر ایک غار میں جا کر چھپ گئے۔ چھپے ہوئے ان نوجوانوں کو اللہ نے کئی سالوں تک نیند میں مبتلا کر دیا۔ اس زمانے کی قوم مٹ جا نے کے بعد اللہ نے انہیں جگایا۔ یہی وہ واقعہ ہے۔
کئی سالوں تک کیا انسان سو سکتا ہے، ایسا شک غیر مسلموں کو پیدا ہو سکتا ہے۔ مگراللہ تو تمام قدرت والا ہے، اس لئے مسلمانوں کو اس میں کوئی شک پیدا نہیں ہوسکتا۔
کوئی بھی عجیب واقعہ ہو، وہ صحیح ہے، اس پر یقین رکھنے کے لئے اللہ اسی میں دلیل بھی رکھ دیتا ہے۔
اس واقعے میں بھی اس کے لئے دلائل موجود ہیں۔
انہیں کئی سالوں تک نیند کی حالت میں رکھنے کے بارے میں کہتے وقت ہم نے انہیں سلائے رکھا ،کہنے کے بجائے اللہ فرماتا ہے کہ ان کے کانوں میں پردہ ڈال دیا۔
اب نیند کے بارے میں کہنے کے لئے اس طرح کہنے کا طریقہ استعمال کیا جا تا ہے ۔ لیکن قرآن مجید کے پہلے نیند کے لئے ایسا کہنے کا طریقہ نہیں تھا کہ کانوں پر پردہ ڈال دیا گیا ہے۔
التحریر والتنویر نامی کتاب میں اس کے مصنف کہتے ہیں کہ بعد کے زمانے کے ادب میں یہ لفظ نیند کے لئے استعمال کیا جارہا ہے، لیکن قرآن مجید کے پہلے ایسا لفظ استعمال میں نہیں تھا۔
جو رواج میں نہیں تھا اس اصطلاح کو اللہ نے کیوں استعمال کیا؟
انسان جب نیند میں ہو تا ہے تو آنکھوں کی حرکت رک جاتی ہے۔ لیکن چھوٹی سی آواز سے بھی وہ جاگ اٹھتا ہے۔
بجلی کی گرج اور جانوروں کی آواز کی وجہ سے وہ لوگ کئی سالوں تک سو نہیں سکتے تھے۔کئی سالوں تک اگر انہیں سونا ہوگا تو ان کے کانوں میں چھوٹی سی آواز یا گرج دار آواز سنائی دئے بغیر روکنا چاہئے۔ اسی وقت وہ کئی سالوں تک بغیر جا گے سو سکتے ہیں۔
اسی کوقرآن نے جو رواج میں نہیں ہے اس لفظ کو استعمال کر کے کہتا ہے کہ کانوں میں پردہ ڈال دیا۔
مزید یہ کہ اس آیت میں کہا گیا ہے کہ ان سونے والوں کو دیکھوگے تو جاگنے والے کی طرح دکھائی دے گااور انہیں دیکھوگے تو تم بھاگ کھڑے ہوجاؤ گے اور خوف کھاؤگے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ لوگ آنکھیں کھلی رکھتے ہوئے سورہے تھے۔ کیونکہ بعض لوگ آنکھیں کھلی رکھتے ہوئے بھی سوتے ہیں۔ لیکن انہیں دیکھ کر کوئی نہیں کہے گا کہ وہ جاگ رہے ہیں۔اسے دیکھ کر کوئی ڈرے گا بھی نہیں۔
بلکہ ایسا ہی سمجھ سکتے ہیں کہ وہ جاگنے والے کی طرح آنکھوں کو جھپکتے ہو ئے سو رہے ہیں۔
پھر بھی دوسروں کو نہیں، بلکہ انہیں آنکھوں کو جھپکتے ہوئے سونے کی خصوصیت کیوں دی گئی؟
ایک انسان لمبے عرصے تک آنکھوں کو بند کر تے رہیں تو مناظر کو دما غ کی طرف لے جا نے والی رگیں(optical nerves) سکڑنے لگ جائے گی اور آخر میں بے حرکت ہوجائے گی۔ اس کی وجہ سے ان کی آنکھیں اندھی ہوجائے گی۔پھر جب وہ آنکھیں کھولیں تو کچھ دیکھ نہیں سکتے۔
آنکھ کی سفیدی کو خون کی نالی نہیں ہے۔ اس لئے آنسوؤں کی غدودسے وقت بہ وقت اس کوگیلاکرکے حفاظت کر نا چاہئے۔ اس لئے آنکھوں کو جب بہت لمبے عرصہ تک کھلا ہی رکھا جائے تو آنکھ کی سفیدی خشک ہو جا نے کا اندیشہ ہے۔ دن بہ دن کارنیو ژراسس(Corneo-xerosis) کی اثر سے اندھاپن پیدا ہو جا ئیگا۔
مختصراًکوئی شخص سالوں سے آنکھوں کو بند ہی رکھیں یا کھلا ہی رکھیں تو ان کی نگاہ اندھی ہوجائے گی، یہ جدیدسائنسی انکشاف ہے۔ اسی جدید سائنسی حقیقت کو ان آیتوں میں کہا گیا ہے۔
کئی سالوں تک بیداری کی حالت میں اگر پڑے رہیں تو زمین سے لگا ہوا جسمانی اعضا گرم ہو کر زخم کی وجہ سے سڑ جائے گا۔ یا وہی انہیں بیدار کر دے گا۔ اور کئی سالوں تک سونے نہیں دیگا۔
اسی لئے انہیں دائیں اور بائیں طرف پلٹا کر اس انجام سے بھی اللہ نے انہیں روک لیا۔
یہ اللہ کا کلام ہے، اس لئے کئی سالوں تک سونے سے جو انجام برپا ہو گا اور جو انجام برپا ہو نے کو سائنسی دنیا دلیل کے ساتھ ثابت کر تی ہے ، اللہ فرماتا ہے کہ ان تمام انجاموں کو دور کرکے انہیں سلادیا ۔
ایسے انجام رہنے کے باوجود اللہ ہی انہیں سلا سکتاہے۔ اس عجیب واقعے پر بھروسہ نہ کر نے والوں کے لئے اپنی قدرت کو ظاہر کر کے ہر چیز کوجاننے والے اللہ کہتا ہے جیسا کہ وہ کہا ہی نہیں۔
462۔ کیا کئی سالوں تک سو سکتے ہیں؟
Typography
- Smaller Small Medium Big Bigger
- Default Meera Catamaran Pavana
- Reading Mode